پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھیرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کےلیے ارشاد فرمایا گیاہے۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں ،جیسا کہ اہلِ عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ءِ رِ اللہِ، ”اور ان ہدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائراللہ میں شامل کیا ہے “۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہدی کےجانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سوار ی کرنا ، یا سامان لادنا، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اِسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، ایسا کرنا تعظیم شعائراللہ کے خلاف نہیں ہے ۔ یہی بات اُن احادیث سے معلوم ہوتی ہے جس اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت انس ؓ سے مروی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جا رہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ اُس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا”ارے سوار ہوجا“۔ |