اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر٦۲

پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھیرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کےلیے ارشاد فرمایا گیاہے۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں ،جیسا کہ اہلِ عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ  وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ءِ رِ اللہِ، ”اور ان ہدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائراللہ میں شامل کیا ہے “۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہدی کےجانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں  تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سوار ی کرنا ، یا سامان لادنا، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اِسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، ایسا کرنا تعظیم شعائراللہ کے  خلاف نہیں ہے ۔ یہی بات اُن احادیث سے معلوم ہوتی ہے جس اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت انس ؓ سے مروی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جا رہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ اُس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا”ارے سوار ہوجا“۔
مفسرین میں سے ابن عباس، قتادہ، مجاہد، ضَحّاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں”ایک وقت مقرر تک“ سے مراد”جب تک جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کر دیا جائے“ ہے۔ اس تفسیر کی رُو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اُٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہَدی کے نام سے موسوم نہ کر دے۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کر لے ، پھر  اسے کوئی فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اوّل تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی  بے معنی ہے ۔ کیونکہ”ہدی“ کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہو اتھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر ”شعائراللہ“ کا اطلاق ہوا ، اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے۔
دُوسرے مفسرین ، مثلاً عُرْوَہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ” وقتِ مقرر “ سے مراد”قربانی کا وقت“ ہے۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں ، ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں ، ان کے بچے بھی لے سکتے ہیں اور اُن کا اون، صوف، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں۔ امام شافعیؒ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ حنفیہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں ، لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرطِ ضرورت استفادہ جائز ہے۔