اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۳

خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک  جانا ، دب جانا، اظہارِ عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اُس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے ، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں، نگاہ پست  ہو جائے، آواز دب جائے ، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اُس حالت میں فطرتًا طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا   لوخشع قلبہ خشعت جوارحہٗ ”اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا  تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا“۔
اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورہ ٔ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا ۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیارِ خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی  دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشۂ چشم سے اِدھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے ، مگر مالیکہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگا ہ سامنے کی طرف رہی چاہیے)۔ نماز میں ہلنا  اور مختلف  سمتوں میں جُھکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا ، یا ان کو جھاڑنا ، یا اُن سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں  جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یہ سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونابہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا ،  یا قرأ ت میں گانا بھی آداب نماز کے خلا ف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہےکہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل ، مثلًا رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کر نا ممنوع ہے۔
ان ظاہری آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے ۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفسِ انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ  وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل  سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آجائیں تو جس وقت بھی آدمی کو اُس کا احساس ہو اُسی وقت اسے اپنی توجہ اُن سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔