اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۴

”لغو“ ہر اس بات  اور کام کو کہتے ہیں جو فضول ، لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی  مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ”لغویات“ ہیں۔
”معرضون“ کا ترجمہ ہم نے  ”دُور رہتے ہیں“ کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہےکہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ ان میں کو ئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصّہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نِکل جاتے ہیں ، یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ   وَاِذَا مَرُّوْ ا بِاللَّغْوِ مَرُّوْ ا کِرَ امًا۔ (الفرقان۔ آیت۷۲) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں ، یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں۔
یہ چیز ، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے ، دراصل مومن کی اہم ترین  صفات میں سے ہے ۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یا د کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تُلی مدّت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے ۔ یہ احساس اس کو بالکل اُس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اُس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی  کے لےی فیصلہ کُن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ اُن گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کا کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو اُنہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں ۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی اُن چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اُسے تیار کرنے والی ہوں۔ اُس کے نزدیک وقت”کانٹے“ کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔
علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خوش ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا ۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا ، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا، تفریحی گفتگو ؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا ۔ اُس کے لیے تو وہ سوسائیٹی ایک مستقل عذاب ہوتتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالیوں سے ، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے ، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اُس کی نعمتوں میں اے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ   لَا تَسمَعُ فِیْھَا لَاغِیَہ۔”وہاں تُو کوئی لغو بات نہ سُنے گا“۔