اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۴١

اصل الفاظ ہیں”جن کی قوم ہماری عابد ہے“۔ عربی زبان میں کسی کا ”مطیع ِ فرمان“ ہونا اور”اس کا عبادت گزار“ ہونا ، دونوں تقریبًا ہم معنی الفاظ ہیں۔ جو کسی کی بندگی و اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے۔ اس سے بڑی اہم روشنی پڑتی ہے  لفظ”عبادت“ کے معنی پر اور انبیاء علیہم السّلام کی اِس دعوت پر کہ صرف اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عباد ت چھوڑ دینے کی تلقین جو وہ کرتے تھے اس کا پورا مفہوم کیا تھا۔ ”عبادت“ ان کے نزدیک صرف”پوجا“ نہ تھی۔ ان کی دعوت یہ نہیں تھی کہ صرف پوجا اللہ کی کرو، باقی بندگی و اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ وہ انسان کو اللہ کا پرستار بھی بنانا چاہتے تھے اور مطیع فرمان بھی، اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے دوسروں کی عبادت کو غلط ٹھیراتے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حاشیہ ۵۰)۔