اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۴٦

پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں ، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔
عملِ صالح سے پہلے طیبات کھانے  کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عملِ صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آدمی رزقِ حلال کھائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” لوگو،  اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے“۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا   الرجل یطیل السفر اشعت اغبر  و مطعمہ حرام و مشربہ حرام  و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدیدیہ الی السماء یا رب  یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ”ایک شخس لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعائیں مانگتا ہے، یارب ، یارب، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام، اورجسم اس کا حرام کی روٹیوں سےپلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو“۔ (مسلم، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہریرہ ؓ)۔