اس رکوع کو چھاپیں

سورة الموٴمنون حاشیہ نمبر۷

یہ جملۂ معترضہ ہے جو اُس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو ”شرمگاہوں کی حفاظت“ کے لفظ  سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے  اور آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوتِ شہوانی  بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خوا ہ جائز طریقے ہی  سے کیوں نہ ہو ، بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کےل یے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہلِ ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بندر ہتے ہین، راہب اور سنیاسی  قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملۂ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہشِ نفس پوری کرنا کوئی قابلِ ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔
اس جملۂ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار  کے ساتھ  یہاں بیان کرتے ہیں۔
(۱) شرمگاہوں کی حفاظت  کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ  کیا گیا ہے۔ ایک ازواج ، دوسرے  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ۔”ازواج“ کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف اُن عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی  اردو لفظ ”بیوی“ کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ،  تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے ، یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک میں ہو۔ اِس طرح یہ آیت صاف تصریح کر دیتی ہے کہ منکوحہ  بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی  سے بھی صنفی تعلق جائز ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ مِلک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسےا زواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ اج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے ، سورۂ نساء کی آیت  وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤ مِنٰتِ  (آیت ۲۵) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہےکہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی متحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو۔ لیکن اِن لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کر لے لیتے ہیں، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا  ان کے مدّعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایت  جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں:-   فَا نْکِحُوْ ھُنَّ بِاِزْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْ ھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ ، ”پس ان (لونڈیوں) سے نکاح کر لو اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اور اُن کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو“۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیرِ بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیرِ بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کر سکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہوتو اس کے وہ”اہل“ (سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو؟ مگر قرآن سے کھیلنے  والے صرف   فَا نْکِحُوْ ھُنَّ  کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی  بِاِ ذْنَ اَھْلِھِنَّ  کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو  وہ سورۂ نساء، آیت ۳ – ۲۵، سورۂ احزاب، آیت ۵۰ – ۵۲، اور سورۂ معارج، آیت ۳۰ کو سورہ ٔ مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۴۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ ۲۹۰ تا ۳۲۴۔ رسائل و مسائل، جلد اوّل، صفحہ ۳۲۴ تا ۳۳۳)۔
(۲) اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَا نُھُمْ   میں لفظ  عَلیٰ  اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اس جملۂ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات   قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر   خٰلِدُوْنَ  تک ، مذکّر کی ضمیروں کے باوجود مردو عورت   دونوں کو شامل ہیں، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے  تو ضمیر مذکر ہی استعمال  کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں   لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنٰی کرتے ہوئے  عَلیٰ  کا لفظ استعمال کر کے بات واضح کر دی گئی  کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر ”ان پر“ کہنے کے بجائے”اُن سے“ محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مردوعورت دونوں پر حاوی ہو سکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابۂ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ   تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہٖ ” اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا“۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظِ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اِس حکم سے مستثنیٰ ہوگئِں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔ اس طرح اس حکمِ استثنا ء کا اثر عملًا  صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہو جاتا ہے، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اِس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش ِ نفس پوری کرسکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوّام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی  رہ جاتی ہے۔
(۳) ”البتہ جو اُس کےعلاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں“، اِس فقرے نے مذکورۂ بالا دوجائز صورتوں کے سوا خواہشِ نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا ، خواہ وہ زنا ہو، یا عملِ قومِ لوط یا وطیٔ بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید(Masturbation ) کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیانًا اس فعل کا صدور ہو جائے تو اُمید ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔
(۴) بعض مفسرین نے مُتعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہےکہ ممنوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدّت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں  کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنٰی ہے۔ پس جب وہ ”بیوی“ اور  ”لونڈی“ دونون کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ”ان کے علاوہ کچھ اور“ میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن”حد سے گزرنے والا“ قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے ،مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکّہ کے سال دیا ہے ، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمتِ متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آچکا تھا جو بالاتفاق مکّی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے فتح مکّہ تک جائز  رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کردینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے۔ اوّل یہ کہ اس  کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر ؓ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ  اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضورؐ نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا ، اس لیے حضرت عمر ؓ  نے اس کی عام اشاعت کی  اور بذریعہ ٔ قانون اس کو نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقًا مباح ٹھیرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے ا س کے لیے  تو بہر حال نصوص کتاب و سنت میں  سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صر ف اضطرار  اور  شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح ِ مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس ؓ ، جن کا نام قائلینِ جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے، اپنے مسلک کی توضیح خود اِن الفاظ میں کرتے ہیں کہ   ما ھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلا ل نہیں) اور اس فتوے سے بھی وہ اُس وقت باز آگئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگےہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباسؓ اور ان کے ہم خیال چند گنے چُنے اصحاب نے  ا س مسلک سے رجُوع کر لیا تھا یا نہیں ، تو اُن کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالتِ اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے۔ مطلق اباحت ، اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممتوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوقِ سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمۂ اہلِ بیت کو اس سے متّہِم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ ا س کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنانِ بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اُٹھانا خوشحال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اور کیا خدا  اور  اس کے رسول سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل  کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزّتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی؟