اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۲۵

 جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ : حّیِّیتم صَبَا حاً ، حُیِّیتم مَسَاءً (صبح بخیر، شام بخیر) کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑ جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انہیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں :
۱ : حضورؐ نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود  نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا ، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتی کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبان (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کر دہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اذا دخل البصر فلا اذن، ’’ جب نگاہ داخل ہو گئی تو پھر خود داخل ہونے کے لیے اجازت مانگنے کا موقع رہا‘‘ (ابو داؤد)۔ حضرت ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ حضورؐ نے اسے فرمایا ھٰکذا عنک ، فانما الا ستیذان من النظر‘‘، پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لیے ہے کہ نگاہ نہ پڑے ‘‘ (ابو داؤد)۔ حضورؐ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے ، کیونکہ اس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پر دے نہ لٹکائے جاتے تھے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد )۔ حضرت انس خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کے حجرے میں باہر سے جھانکا۔ حضورؐ اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں بھونک دیں گے (ابو داؤد)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حجورؐ نے فرمایا من نظر فی کتاب اخیہ بغیر اذنہ فانما یجظر فی لنار، ’’ جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے ‘‘ (ابو داؤد)۔ صحیحین میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لو ان امرأ اطلع علیک بغیر اذن فخذفتہ بحصارۃ ففقأت علیہ ما کان علیک من جناح، ’’ اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں ‘‘۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے : من اطلع دار قومٍ بغیر اذانھم ففقؤا عینہ فقد ھدرت عینہ، ’’ جس نے کسی کے گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مؤخذہ نہیں ‘‘۔ امام شافعیؒ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں۔ لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پردہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوٹ جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا (احکام القرآن جصاص۔ ج3۔ ص 385)۔
۲ : فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہ پڑے گی ، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح تخلیہ کے حق میں بے جا مداخلت ہے۔
۳ : اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں بہتوں کے پاس جانے کی صورت میں بھی ہے۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میرے سوا ان کی خدمت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے ، کیا ہر بار جب میں اس کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں ؟ فرمایا : اتحب ان تراھا عریانۃ، ’’ کیا تو پسند کرتا ہے کہاپنی ماں کو برہنہ دیکھے ؟‘‘(ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً )۔  بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہیے۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبدل اللہ بن مسعود جب کبھی گھر  میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ آ رہے ہیں۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں (ابن جریر)۔
۴ : اجازت طلب کرنے کے حکم ے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آ جائے ، مثلاً آگ لگ جائے یا چور گھس آئے۔ ایسے مواقع پر مدد کے لیے بلا اجازت جا سکتے ہیں۔
۵ : اول اول جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں آیا اور دروازے پر سے پکار کر کہنے لگا :أألج (کیا میں گھر میں گھس آؤں؟) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ ذرا اٹھ کر اسے بتا کہ یوں کہنا چاہیے : السلام علیکم أأدخل (ابن جریر۔ ابو داؤد )۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرتؐ کے ہاں گیا اور دروازہ کھٹ کھٹایا۔ آپ نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا ’’ میں ہوں ‘‘۔ آپ نے  دو تین مرتبہ فرمایا: ’’میں ہوں ؟ میں ہوں ؟ ‘‘ یعنی اس میں ہوں سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو(ابو داؤد )۔ ایک صاحب کَلَدَہ بن حَنبل ایک کام ے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں گئے اور سلام کے بغیر یونہی جا بیٹھے۔ آپ نے فرمایا باہر جاؤ، اور السلام علیکم کہ ہ کر اندر آؤ (ابو داؤد)۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتا کر اجازت طلب کرے۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے ’’السلام علیہ یا رسول اللہ ، اید خل عمر (ابو داؤد )۔ اجازت لینے کے لیے حضور نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کر دی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پربھی جواب نہ آئے تو واپس ہو جاؤ (بخاری، مسلم، ابو داؤد )۔ یہی حضورؐ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں گئے اور اسلام علیہ و رحمۃ اللہ کہ ہ کر دو دفعیہ اجازت طلب کی، مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہو گئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا، مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے مرے لیے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے ، اس لیے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا (ابو داؤد۔ احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے در پے نہ ہونا چاہیے ، بلکہ ذرا ٹھیر ٹھیر کر پکارنا چاہیے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے۔
۶ : اجازت یا تو خود صاب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے ، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر دے کہ آ جاؤ تو اس پر اعتماد کر کے داخل نہ ہو جانا چاہیے۔
۷ : اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا، یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھٹے ہو جانا جائز نہیں ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ نہ ملے ، یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔