اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۴

یعنی سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جائے ، تاکہ ایک طرف مجرم کو فضیحت ہو اور دوسری طرف عوام الناس کو نصیحت۔ اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ سورہ مائدہ میں چوری کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا : جَزَآءًمبِمَا کَسَبَا نَکَا لًامِّنَ اللہِ۔ ’’ ان کے کیے کا بدلا اور اللہ کی طرف سے جرم کو روکنے والی سزا‘‘(آیت 38) اور اب یہاں ہدایت کی جار ہی ہے کہ زانی کو علانیہ لوگوں کے سامنے عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں۔ اول یہ کہ مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لیا جائے اور اس کو اس برائی کا مزا چکھایا جائے جواس نے کسی دوسرے شخص یا معاشرے کے ساتھ کی تھی۔ دوم یہ کہ اسے اعادہ جرم سے باز رکھا جائے۔ سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنا دیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہو جائے اور وہ اس طرح کے کسی جرم کی جرأت نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ علانیہ سزا دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حکام سزا دینے میں بے جا رعایت یا بے جا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کر سکتے ہیں۔