اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۴۲

 یہاں چونکہ رشتہ داروں کا حلقہ ختم ہو رہا ہے اور آگے غیر رشتہ دار لوگوں کا ذکر ہے ، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے تین مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیجیے ، کیونکہ ان کو نہ سمجھنے سے متعدد الجھنیں واقع ہوتی ہیں :
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بعض لوگ اظہار زینت کی آزادی کو صرف ان رشتہ داروں تک محدود سمجھتے ہیں جن کا نام یہاں لیا گیا ہے ، باقی سب لوگوں کو ، حتیٰ کہ سگے چچا اور سگے ماموں تک کو ان رشتہ داروں میں شمار کرتے ہیں جن سے پردہ کیا جانا چاہیے۔ اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ انکا نام قرآن میں نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ سگے چچا اور ماموں تو درکنار ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تو رضاعی چچا اور ماموں سے بھی پردہ کرنے کی حضرت عائشہ کو اجازت نہ دی۔ صحاح ستہ اور مسند احمد میں حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ابو القُعیس کے بھائی اَفْلَح ان کے ہاں آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ چونکہ پردے کا حکم آ چکا تھا اس لیے حضرت عائشہ نے اجازت نہ دی ؛۔ انہوں نے کہلا کر بھیجا کہ تم تو میری بھتیجی ہو ، کیونکہ میرے بھائی ابو القعیس کی بیوی کا تم نے دودھ پیا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کو اس میں تامل تھا کہ یہ رشتہ بھی ایسا ہے جس میں پردہ اٹھا دینا جائز ہو۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس آیت کو اس معنی میں نہیں لیا ہے  کہ اس میں جن جن رشتہ داروں کا ذکر آیا ہے ان سے پردہ نہ ہو۔ اور باقی سب سے ہو۔ بلکہ آپ نے اس سے یہ  اخذ کیا ہے کہ  جن جن رشتہ داروں سے ایک عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اسی آیت کے حکم میں داخل ہیں ، مثلاً چچا، ماموں ، داماد اور رضاعی رشتہ دار۔ تابعین میں سے حضرت حسن بصری نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ، اور اسی کی تائید علامہ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمائی ہے (ج۔ 3 ، ص۔ 390)۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن رشتہ داروں سے ابدی حرمت کا رشتہ نہ ہو (یعنی جن سے ایک کنواری یا بیوہ عورت کا نکاح جائز ہو) وہ نہ تو محرم رشتہ داروں کے حکم میں ہیں کہ عورتیں بے تکلف ان کے سامنے اپنی زینت کے ساتھ  آئیں ، اور نہ بالکل اجنبیوں کے حکم میں کہ عورتیں ان سے ویسا ہی مکمل پردہ کریں جیسا غیروں سے کیا جاتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک کیا رویہ ہونا چاہیے ، یہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے ، کیونکہ اس کا تعین ہو نہیں سکتا۔ اس کے حدود مختلف رشتہ داروں کے معاملے میں ان کے رشتے ، ان کی عمر ، عورت کی عمر، خاندانی تعلقات و روابط، اور فریقین کے حالات (مثلاً مکان کا مشترک ہونا یا الگ الگ مکانوں میں رہنا) کے لحاظ سے لا محالہ مختلف ہوں گے اور ہونے چاہییں۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا طرز عمل جو کچھ تھا اس سے ہم کو یہی رہنمائی ملتی ہے۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر، جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سالی تھیں ، آپ کے سامنے ہوتی تھیں ، اور آخر وقت تک آپ کے اور ان کے درمیان کم از کم چہرے اور ہاتھوں کی حد تک کوئی پردہ نہ تھا۔ حجۃ الوداع نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے صرف چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم تھی (ملاحظہ ہو ابو داؤد، کتاب الحج، باب المحرم یؤ دِّب غلامہ)۔ اسی طرح حضرت ام ہانی ، جو ابو طالب کی صاحبزادی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چچا زاد بہن تھیں ، آخر وقت تک حضور کے سامنے ہوتی رہیں ، اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انہوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ فتح مکہ کے موقع کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے (ملاحظہ ہو ابو داؤد ، کتاب الصوم ، باب فی النیہ فی الصوم والرخصۃ فیہ)۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباس اپنے بیٹے فضل کو، اور ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب (نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا زاد بھائی) اپنے بیٹے عبدالمطلب کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں یہ کہ ہ کر بھیجتے ہیں کہ اب تم لوگ جوان ہو گئے ہو، تمہیں جب تک روزگار نہ ملے تمہاری شادیاں نہیں ہو سکتیں ، لہٰذا تم رسولؐ اللہ کے پاس جا کر نوکری کی درخواست کرو۔ یہ دونوں حضرت زینب کے مکان پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت زینب فضل کی حقیقی پھوپھی زاد بہن ہیں۔ اور عبد المطلب بن ربیعہ کے والد سے بھی ان کا وہی رشتہ ہے جو فضل سے۔ لیکن وہ ان دونوں کے سامنے نہیں ہوتیں اور حجور کی موجودگی میں ان کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرتی ہیں (ابو داؤد، کتاب الخراج)۔ ان دونوں قسم کے واقعات کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کی صورت وہی کچھ سمجھ میں آتی ہے جو اوپر ہم بیان کر آئے ہیں۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جہاں رشتے میں شبہ پڑ جائے وہاں محرم رشتہ دار  سے بھی  احتیاطاً پردہ کرنا چاہیے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد میں ہے کہ حضرت سودہ ام المومنین کا ایک بھائی لونڈی زادہ تھا (یعنی ان کے باپ کی لونڈی کے بطن سے تھا ) اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص کو ان کے بھائی عتبہ نے وصیت کی کہ اس لڑکے کو اپنا بھتیجا سمجھ کر اس کی سر پرستی کرنا، کیونکہ وہ در اصل میرے نطفے سے ہے۔ یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ نے حضرت سعد کا دعویٰ یہ کہ ہ کر خارج کر دیا کہ ’’ بیٹا اس کا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، رہا زانی تو اس کے حصے میں کنکر پتھر‘‘۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے حضرت سودہ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کرنا(احتجبی منہ) ، کیونکہ یہ اطمینان نہ رہا تھا کہ وہ واقعی ان کا بھائی ہے۔