اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۴۵

 اصل میں : التابعین غیر اولی الاربۃ من الرجال کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’ مردوں میں سے وہ مرد جو تابع ہوں خواہش نہ رکھنے والے ‘‘۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ محرم مردوں کے سوا دوسرے کسی مرد کے سامنے ایک مسلمان عورت صرف اس صورت میں اظہار زینت کر سکتی ہے جب کہ اس میں دو صفات پائی جاتی ہوں : ایک یہ کہ وہ تابع، یعنی زیر دست اور ماتحت ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ خواہش نہ رکھنے والا ہو، یعنی اپنی عمر یا جسمانی عدم اہلیت، یا عقلی کمزوری ، یا فقر و مسکنت ، یا زیر دستی و محکومی کی بنا پر جس میں یہ طاقت یا جرأت نہ ہو کہ صاحب خانہ کی  بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کے متعلق کوئی بری نیت دل میں لا سکے۔ اس حکم کو جو شخص بھی فرمانبرداری کی نیت سے ، نہ کہ نا فرمانی کی گنجائشیں ڈھونڈنے کی نیت سے ، پڑھے گا وہ اول نظر ہی میں محسوس کر لے گا کہ آج کل کے  بیرے خانسامے ، شوفر اور دوسرے جواب جواب نوکر تو بہر حال اس تعریف میں نہیں آتے۔ مفسرین اور فقہاء نے اس کی جو تشریحات کی ہیں ان پر ایک نظر ڈال لینے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اہل علم ان الفاظ کا کیا مطلب سمجھتے رہے ہیں :
ابن عباس: اس سے مراد وہ سیدھا بُدھو(مُغَفَّل) آدمی ہے جو عورتوں سے دلچسپی نہ رکھتا ہو۔
قَتَادہ: ایسا دست نگر آدمی جو پیٹ کی روٹی پانے کے لیے تمہارے ساتھ لگا رہے۔
مجاہد : ابلہ جو روٹی چاہتا ہے اور عورتوں کا طالب نہیں ہے۔
شَعبِی : وہ جو صاحب خانہ کا تبع و دست نگر ہو اور جس کی اتنی ہمت ہی نہ ہو کہ عورتوں پر نگاہ
ڈال سکے۔
ابن زید : وہ جو کسی خاندان کے ساتھ لگا رہے ، حتیٰ کہ گویا اسی گھر کا ایک فرد بن گیا ہو اور اسی
گھر میں پلا بڑہا ہو۔ جو گھر والوں کی عورتوں پر نگاہ نہ رکھتا ہو، نہ اس کی ہمت ہی کر سکتا ہو۔ وہ
ان کے ساتھ اس لیے لگا رہتا ہو کہ ان سے اس کو روٹی ملتی ہے۔
طاؤس اور زُہری: بے وقوف آدمی جس میں نہ عورتوں کی طرف رغبت ہو اور نہ اس کی ہمت۔
(ابن جریر، ج 18۔ ص 95۔ 96۔ ابن کثیر، ج3 ص 285 )
ان تشریحات سے بھی زیادہ واضح تشریح وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پیش آیا تھا اور جسے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی اور احمد عغیرہ محدثین نے حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے روایت کیا ہے۔ مدینہ طیبہ میں ایک مخنّث تھا جسے ازواج مطہرات اور دوسری خواتین غیر اولی الاربہ میں شمار کر کے اپنے ہاں آنے دیتی تھیں۔ ایک روز جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ام المومنین ام سلمہؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپ نے اس کو حضرت ام سلمہ کے بھائی عبد اللہ بن ابی امیہ سے باتیں کرتے سن لیا۔ وہ کہ ہ رہا تھا کہ کل اگر طائف فتح ہو جائے تو غیلان ثَقَفِی کی بیٹی باویہ کو حاصل کیے بغیر نہ رہنا۔ پھر س نے باویہ کے حسن اور اس کے جسم کی تعریف کرنی شروع کی اور اس کے پوشدہ اعضاء تک کی صفت بیان کر ڈالی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ باتیں سنیں تو فرمایا ’’ خدا کے دشمن، تو نے تو اس میں نظریں گاڑ دیں ‘‘۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اس سے پردہ کرو، آئندہ یہ گھروں میں نہ آنے پائے۔ اس کے بعد آپ نے اسے مدینے سے باہر نکال دیا اور دوسرے مخنثوں کو بھی گھروں میں گھسنے سے منع فرما دیا، کیونکہ ان کو مخنّث سمجھ کر عورتیں ان سے احتیاط نہ کرتی تھیں اور وہ ایک گھر کی عورتوں کا حال دوسرے مردوں سے بیان کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ : غیر اولیا الا ربہ ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ایک شخص جسمانی طور پر بد کاری کے لائق نہیں ہے۔ اگر اس میں دبی ہوئی صنفی خواہشات موجود ہیں اور وہ عورتوں سے دلچسپی رکھتا ہے تو بہر حال وہ بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا ہے۔