اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۵

 یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے ، یا پھر مشرکہ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے ، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں۔ اسی طرح زانیہ (غیر تائبہ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں ، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد ’’ زانی‘‘ ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی۔
زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے ، نہ یہ کہ اس کم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال، ’’ حرام حلال وک حرام نہیں کر دیتا‘‘(طبرانی، دارقطنی) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے ، وہ بھی بد کار قرار پائے۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون (Out law) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا  جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے ، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے۔
اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے ، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے۔ آیت کا منشا در اصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے ، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے۔
آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہیں۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے  کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی۔ ترمذی اور ابو داؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کر لیں اور حضور سے اجازت مانگی۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد، الزانی لا ینکح الازانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ جو شخص دیوث ہو( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (احمد ، نسائی ، ابو داؤد اور طیالِسی)۔ شیخین، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکرؓ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو۔ حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا : قبحک اللہ ، الا سترت علی ابنتک، ’’ تیرا برا ہو ، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا‘‘؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا ، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکرؓ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں (جلد 2۔ ص 86)۔