اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۵۳

 اس کا مطلب نہیں ہے کہ جس کا بھی نکاح ہو جائے گا اللہ اس کو مال دار بنا دے گا ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت زیادہ حسابی بن کر نہ رہ جائیں۔ اس میں لڑکی والوں کے لیے بھی ہدایت ہے کہ نیک اور شریف آدمی اگر ان کے ہاں پیغام دے تو محض اس کی غربت دیکھ کر انکار نہ کر دیں۔ لڑکے والوں کو بھی تلقین ہے کہ کسی نوجوان کو محض اس لیے نہ بٹھا رکھیں کہ ابھی وہ بہت نہیں کما رہا ہے۔ اور نوجوانوں کو بھی نصیحت ہے کہ زیادہ کشائش کے انتظار میں اپنی شادی کے معاملے کو خواہ مخواہ نہ ٹالتے رہیں۔ تھوڑی آمدنی بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کر ڈالنی چاہیے۔ بسا اوقات خود شادی ہی آدمی کے حالات درست ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بیوی کی مدد سے اخراجات قابو میں آ جاتے ہیں۔ ذمہ داریاں سر پر آ جانے کے بعد آدمی خود بھی پہلے سے زیادہ محنت اور کوشش کرنے لگتا ہے۔ بیوی معاش کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مستقبل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے ، اسے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اچھے حالات بُرے حالات میں بھی بدل سکتے ہیں اور بُرے حالات اچھے حالات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آدمی کو ضرورت سے زیادہ حساب لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔