اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر۵٦

 اس آیت کا مطلب فقہاء کے ایک گروہ نے یہ لیا ہے کہ جب کوئی لونڈی یا غلام مکا تبت کی درخواست کوے تو آقا پر اس کا قبول کرنا واجب ہے۔ یہ عطاء ، عمر و بن دینار، ابن سیرین ، مسروق، ضحاک ، عکرمہ، ظاہر یہ ، اور ابن جریر طبری کا مسلک ہے اور امام شافعی بھی پہلے اسی کے قائل تھے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ مُستحب اور مندوب ہے۔ اس گروہ میں شعبی، مقاتل بن حیان، حسن نصری ، عبد الرحمٰن بن زید ، سفیان ثوری ، ابو حنیفہ اور مالک بن انس جیسے بزرگ شامل ہیں ، اور آخر میں امام شافعی بھی اسی کے قائل ہو گئے تھے۔ پہلے گروہ کے مسلک کی تائید دو چیزیں کرتی ہیں۔ یک یہ کہ آیت کے الفاظ ہیں کَاتِبُوْھُمْ، ’’ ان سے مکاتبت کر لو‘‘۔ یہ الفاظ صاف طور پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ دوسرے یہ کہ معتبر روایات سے ثابت ہے کہ مشہور فقیہ (محدث حضرت محمد بن سیرین کے والد سیرین نے اپنے آقا حضرت انس سے جب مکاتبت کی در خواست کی اور انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تو سیرین حضرت عمرؓ کے پاس شکایت لے گئے۔ انہوں نے واقعہ سنا تو درہ لے کر حضرت انس پر پل پڑے اور فرمایا ’’اللہ کا حکم  ہے کہ مکاتبت کر لو‘‘(بخاری )۔ اس واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا ذاتی فعل نہیں بلکہ صحابہ کی موجودگی میں کیا گیا تھا اور کسی نے اس پر اظہار اختلاف نہیں کیا، لہٰذا یہ اس آیت کی مستند تفسیر ہے۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ ت عالیٰ نے صرف فکاتبوھم نہیں فرمایا ہے بلکہ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیرا ارشاد فرمایا ہے ، یعنی‘‘ ان سے مکاتبت کر لو اگر ان کے اندر بھلائی پاؤ‘‘ یہ بھلائی پانے کی شرط ایسی ہے جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے ، اور کوئی متعین معیار اس کا نہیں ہے جسے کوئی عدالت جانچ سکے۔ قانونی احکام کی یہ شان نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے اس حکم کو تلقین اور ہدایت ہی کے معنی میں لیا جائے گا نہ کہ قانونی حکم کے معنی میں۔ اور سیرین کی نظیر کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں کوئی ایک غلام تو ن ہ تھا جس نے مکاتبت کی درخواست کی ہو۔ ہزارہا غلام عہد نبوی اور عہد خلافت راشدہ میں موجود تھے ، اور بکثرت غلاموں نے مکاتبت کی ہے۔ سیرین والے واقعہ کے سوا کوئی مثال ہم کو نہیں ملتی کہ کسی آقا کو عدالتی حکم کے ذریعہ سے مکاتبت پر مجبور کیا گیا ہو۔ لہٰذا حضرت عمر کے اس فعل کو ایک عدالتی فعل سمجھنے کے بجائے ہم اس معنی میں لیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محض قاضی ہی نہ تھے بلکہ افراد ملت کے ساتھ ان کا تعلق باپ اور اولاد کا سا تھا۔ بسا اوقات وہ بہت سے ایسے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے جن میں ایک باپ تو دخل دے سکتا ہے مگر ایک حاکم عدالت دخل نہیں دے سکتا۔