اس رکوع کو چھاپیں

سورة النور حاشیہ نمبر٦١

 یہاں سے روئے سخن منافقین کی طرف پھرتا ہے جو اسلامی معاشرے میں فتنوں پر فتنے اٹھائے چلے جا رہے تھے اور اسلام، اسلامی تحریک اور اسلامی ریاست و جماعت کو زک دینے میں اسی طرح سرگرم تھے جس طرح باہر کے کھلے کھلے کا فر دشمن سرگرم تھے۔ یہ لوگ ایمان کے مدعی تھے ، مسلمانوں میں شامل تھے ، مسلمانوں کے ساتھ ، اور خصوصاً  انصار کے ساتھ ، رشتہ و برادری کے تعلقات رکھتے تھے ، اسی لیے ان کو مسلمانوں میں اپنے فتنے پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا تھا، اور بعض مخلص مسلمان تک اپنی سادہ لوحی یا کمزوری کی بنا پر ان کے آلۂ  کار بن جاتے تھے اور پشت پناہ بھی۔ لیکن در حقیقت ان کی دنیا پرستی نے  ان کی آنکھیں اندھی کر رکھی تھیں اور دعواے ایمان کے باوجود وہ اس نور سے بالکل بے بہرہ تھے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت دنیا میں پھیل رہا تھا۔ اس موقع پر ان کو خطاب کیے بغیر ان کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا جا رہا ہے اس سے مقصود تین امور ہیں۔ اول یہ کہ ان کو فہمائش کی جائے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جو بندہ بھی بہکا اور پھٹکا ہوا ہو اس کی تمام شرارتوں ور خباثتوں کے باوجود اسے آخر وقت تک سمجھانے کی کوشش کی جائے دوم یہ کہ ایمان اور نفاق کا فرق صاف صاف کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کسی صاحب عقل و خرد انسان کے لیے مسلم معاشرے کے مومن اور منافق افراد کے درمیان تمیز کرنا مشکل نہ رہے ، اور اس توضیح و تصریح کے باوجود جو شخص منافقوں کے پھندے میں پھنسے یا ان کی پشت بانی کرے وہ اپنے اس فعل کا پوری طرح ذمہ دار ہو۔ سوم یہ کہ منافقین کو صاف صاف متنبہ کر دیا جائے کہ اللہ کے جو وعدے اہل ایمان کے تقاضے پورے کریں۔ یہ وعدے ان سب لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو محض مسلمانوں کی مردم شماری میں شامل ہوں۔ لہٰذا منافقین اور فاسقین کو یہ امید نہ رکھنی چاہیے کہ وہاں وعدوں میں سے کوئی حصہ پا سکیں گے۔