یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے ۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے ، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیر اسے حاصل ہو گئی تھیں ، یا 25 برس کی عمر سے ، جب کہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے ، حاصل ہونی شروع ہو گئی تھیں ، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بے حیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا ۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے ۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا ۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں ۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں ے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں ، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے ، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سنا تا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے ، پڑھے 6 لکھے تھے ، اور مکہ میں رہتے تھے ، یعنی عدّ اس (حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کر دہ غلام) یَسَار (علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام) اور جَبرْ (عامر بن ربیعہ کا آزاد کر دہ غلام ) ۔ |