اگر پہلے رخ (یعنی توحید کی دلیل کے نقطہ نظر ) سے دیکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو محض بارش کے انتظام ہی میں اللہ کے وجود اور اس کی صفات اور اس کے واحد ربُّ العالمین ہونے پر دلالت کرنے والی اتنی نشانیاں موجود ہیں کہ تنہا وہی ان کو پیغمبر کی تعلیم توحید کے برحق ہونے کا اطمینان دلا سکتی ہیں ۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم بار بار اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا میں پانی کی تقسیم کے یہ کرشمے نت نئے انداز سے پے در پے ان کمینگاہوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، یہ ظالم کوئی سبق نہیں لیتے ۔ نہ حق و صداقت کو مان کر دیتے ہیں ، نہ عقل و فکر کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دی ہیں ، اور نہ اس احسان کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں کہ جو کچھ وہ خود نہیں سمجھ رہے تھے اسے سمجھانے کے لیے قرآن میں بار بار کوشش کی جا رہی ہے ۔ |