اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۷

 اصل میں لفظ مُلک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی ، اقتدار اعلیٰ، اور حاکمیت (Sovereignty) کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے ، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا ل، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لائے ، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے ‘‘ ۔