یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے ، جبّاروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے ، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے ۔ ’’نرم چال‘‘ سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے ، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرتے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں ۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جواب آدمی کو مَریَل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے ۔ قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو۔ |