دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ‘‘، ’’ یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا‘‘۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے ، بہر حال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریو ، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔ |