اس رکوع کو چھاپیں

سورة الفرقان حاشیہ نمبر۸

 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ‘‘، ’’ یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا‘‘۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے ، بہر حال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریو ، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔
اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ ،’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جن کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ‘‘(مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شَیبہ ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے ۔