یعنی ایک دن تنہا یہ اونٹنی تمہارے کنوؤں اور چشموں سے پانی پیے گے اور ایک دن ساری قوم کے آدمی اور جانور پیئیں گے۔ خبر دار، اس کی باری کے دن کوئی شخص پانی لینے کی جگہ پھٹکنے نہ پائے۔ یہ چیلنج بجائے خود نہایت سخت تھا۔ لیکن عرب کے مخصوص حالات میں تو کسی قوم کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا چیلنج ہو نہیں سکتا تھا۔ وہاں تو پانی ہی کے مسئلے پر خون خرابے ہو جاتے تھے ، قبیلہ قبیلے سے لڑ جاتا تھا اور جان جوکھوں کی بازی لگا کر کسی کنوئیں یا چشمے سے پانی لینے کا حق حاصل کیا جاتا تھا۔ اس سر زمین میں کسی شخص کا اَٹھ کر یہ کہہ دینا کہ ایک دن میری اکیلی اونٹنی پانی پیے گی اور باقی ساری قوم کے آدمی اور جانور صرف دوسرے دن ہی پانی لے سکیں گے ، یہ معنی کہتا تھا کہ وہ در اصل پوری قوم کو لڑائی کا چیلنج دے رہا ہے۔ ایک زبر دست لشکر کے بغیر کوئی آدمی عرب میں یہ بات زبان سے نہ نکال سکتا تھا اور کوئی قوم یہ بات اس وقت تک نہ سن سکتی تھی جب تک وہ اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھ رہی ہو کہ چیلنج دینے والے کی پشت پر اتنے شمشیر زن اور تیر انداز موجود ہیں جو مقابلے پر اُٹھنے والوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن حضرت صالح نے بغیر کسی لاؤ لشکر کے تنہا اٹھ کر یہ چیلنج اپنی قوم کو دیا اور قوم نے نہ صرف یہ کہ اس کو کان لٹکا کر سنا بلکہ بہت دنوں تک ڈر کے مارے وہ اس کی تعمیل بھی کرتی رہی۔ |