اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١١۴

 اس بارش سے مراد پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک ایک زور کا دھماکا ہوا (فَاَ خَذَ تْھُمُ الصَّیْحَۃُمُشْرِقِیْنَ  O )، ایک ہولناک زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا (جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا )، ایک زبردست آتش فشانی اِنفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر بر سائے گئے (وَاَمْطَرْ نَا عَلَیْھَا حِجَا رَ ۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ  O ) اور ایک طوفانی ہو سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا (اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ حَاصِباً)۔
بائیبل کے بیانات، قدیم یونانی اور لاطینی تحریروں ، جدید زمانے کی طبقات الارضی تحقیقات اور آثار قدیمہ کے مشاہدات سے اس عذاب کی تفصیلات پر جو روشنی پڑتی ہے اس کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :
بحیرہ مردار (Dead Sea) کے جنوب اور مشرق میں جو علاقہ آج انتہائی ویران اور سنسان حالت میں پڑا ہوا ہے ، اس میں بکثرت پرانی بستیوں کے کھنڈروں کی موجودگی پتہ دیتی ہے کہ یہ کسی زمانہ میں نہایت آباد علاقہ رہا تھا۔ آج وہاں سینکڑوں برباد شدہ قریوں کے آثار ملتے ہیں ، حالانکہ اب یہ علاقہ اتنا شاداب نہیں ہے کہ اتنی آبادی کا بوجھ سہار سکے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقے کی آبادی و خوشحالی کا دور 2400 قبل مسیح سے 1900 قبل مسیح تک رہا ہے ، اور حضرت ابراہیمؑ کے متعلق مؤرخین کا اندازہ یہ ہے کہ وہ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں گزرے ہیں۔ اس لحاظ سے آثار کی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ علاقہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بھتیجے حضرت لوطؑ کے عہد ہی میں برباد ہوا ہے۔
اس علاقے کا سب سے زیادہ آباد اور سر سبز و شاداب حصہ وہ تھا جسے بائیبل میں ’’ سِدّیم کی وادی‘‘ کہا گیا ہے ، جس کے متعلق بائیبل کا بیان ہے کہ ’’ وہ اس سے پیشتر خداوند نے سَدُوم اور عمورہ کو تباہ کیا، خداوند کے باغ (عدن) اور مصر کے مانند خوب سیراب تھی‘‘ (پیدائش، باب 13۔ آیت 10 )۔ موجودہ زمانے کے محققین کی عام رائے یہ ہے کہ وہ وادی اب بحیرہ مردار کے اندر غرق ہے ، اور یہ رائے مختلف آثار کی شہادتوں سے قائم کی گئی ہے۔ قدیم زمانہ میں ، بحیرہ مردار جنوب کی طرف اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے۔ شرق اُردن کے موجودہ شہر الکرک کے سامنے مغرب کی جانب اس بحیرے میں جو ایک چھوٹا سا جزیرہ نما’’اللّسان‘‘ پایا جاتا ہے ، قدیم زمانے میں جس یہی پانی کی آخری سرحد تھی۔ اس کے نیچے کا حصہ جہاں اب پانی پھیل گیا ہے (جسے ملحقہ نقشے میں ہم نے آڑی لکیروں سے نمایاں کیا ہے ) پہلے ایک س سبز وادی کی شکل میں آباد تھا اور یہی وہ وادی سدیم تھی جس میں قوم لوطؑ کے بڑے بڑے شہر سدوم، عمورہ، ادمہ، ضبوئیم اور ضُغر واقع تھے۔ دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانہ میں ایک زبردست زلزلے کی وجہ سے یہ وادی پھٹ کر دب گئی اور بحیرہ مردار کا پانی اس کے اوپر چھا گیا۔ آج بھی یہ بحیرے کا سب سے زیادہ اُتھلا حصہ ہے ، مگر رومی عہد میں یہ اتنا اُتھلا تھا کہ لوگ اللّسان سے مغربی ساحل تک چل کر پانی میں سے گزر جاتے تھے۔ اس وقت تک جنوبی ساحل کے ساتھ ساتھ پانی میں ڈوبے ہوئے جنگلات صاف نظر آتے ہیں۔ بلکہ یہ شبہہ بھی کیا جاتا ہے کہ پانی میں کچھ عمارات ڈوبی ہوئی ہیں۔
بائیبل اور قدیم یونانی و لاطینی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں جگہ جگہ نفط (پٹرول) اور اسفالٹ کے گڑھے تھے اور بعض بعض زمین سے آتش گیر گیس بھی نکلتی تھی۔ اب بھی وہاں زیر زمین پٹرول اور گیسوں کا پتہ چلتا ہے۔ طبقات الارض مشاہدات سے اندازہ کیا گیا ہے کہ زلزلے کے شدید جھٹکوں کے ساتھ پٹرول، گیس اور اسفالٹ زمین سے نکل کر بھڑک اٹھے اور سارا علاقہ بھک سے اڑ گیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس تباہی کی اطلاع پاکر حضرت ابراہیمؑ جب حبرون سے اس وادی کا حال دیکھنے آئے تو زمین سے دھواں اس طرح اٹھ رہا تھا جیسے بھٹی کا دھواں ہوتا ہے (پیدائش باب 19۔ آیت 28)۔