اس بارش سے مراد پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس عذاب کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت لوط جب رات کے پچھلے پہر اپنے بال بچوں کو لے کر نکل گئے تو صبح پو پھٹتے ہی یکایک ایک زور کا دھماکا ہوا (فَاَ خَذَ تْھُمُ الصَّیْحَۃُمُشْرِقِیْنَ O )، ایک ہولناک زلزلے نے ان کی بستیوں کو تل پٹ کر کے رکھ دیا (جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا )، ایک زبردست آتش فشانی اِنفجار سے ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر بر سائے گئے (وَاَمْطَرْ نَا عَلَیْھَا حِجَا رَ ۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ O ) اور ایک طوفانی ہو سے بھی ان پر پتھراؤ کیا گیا (اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ حَاصِباً)۔ |