اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١۲١

 اس فقرے کا تعلق ’’امانت دار روح اتری ہے ‘‘ سے بھی ہو سکتا ہے اور ’’متنبہ کرنے والے ہیں ‘‘ سے بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ امانت دار روح اسے صاف صاف عربی زبان میں لائی ہے ، اوعر دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان انبیاء میں شامل ہوں جنہیں عربی زبان میں خلق خدا کو متنبہ کرنے کے لیے مامور فرمایا گیا تھا، یعنی ہود، صالح، اسماعیل اور شعیب علیہم السلام۔ دونوں صورتوں میں مقصود کلام ایک ہی ہے ، اور وہ یہ کہ رب العالمین کی طرف سے یہ تعلیم کسی مردہ یا جنّاتی زبان میں نہیں آئی ہے ، نہ اس میں کوئی معمے یا چیستاں کی سی گنجلک زبان استعمال کی گئی ہے ، بلکہ یہ ایسی صاف اور فصیح عربی زبان میں ہے جس کا مفہوم و مدعا ہر عرب اور ہر وہ شخص جو عربی زبان جانتا ہو، بے تکلف سمجھ سکتا ہ۔ اس لیے جو لوگ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ان کے لیے یہ عذر کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے کہ وہ اس تعلیم کو سمجھ نہیں سکے ہیں ، بلکہ ان کے اعراض و انکار کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ اسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں فرعون مصر اور قوم ابراہیم اور قوم نوح اور قوم لوط اور عاد و ثمود اور اصحاب الایکہ مبتلا تھے۔