اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١۲۸

 اس فقرے اور اس سے پہلے کے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے سامع کا ذہن تھوڑا سا غور کر کے خود بھر سکتا ہے۔ عذاب کے لیے ان کے جلدی مچانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عذاب کے آنے کا کوئی اندیشہ نہ رکھتے تھے۔ انہیں بھروسا تھا کہ جیسی چین کی بنسری آج تک ہم بجاتے رہے ہیں اسی طرح ہمیشہ بجاتے رہیں گے۔ اسی اعتماد پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر واقعی تم خدا کے رسول ہو اور ہم تمہیں جھٹلا کر عذاب الٰہی کے مستحق ہو رہے ہیں تو لو ہم نے تمہیں جھٹلا دیا، اب لے آؤ اپنا وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے ، اچھا اگر بالفرض ان کا یہ بھروسا صحیح ہی ہو، اگر ان پر فوراً عذاب نہ آئے ، اگر انہیں دنیا میں مزے کرنے کے لیے ایک لمبی ڈھیل بھی مل جائے جس کی توقع پر یہ پھول رہے ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ جب بھی ان پر عاد و ثمود یا قوم لوط اور اصحاب الایکہ کی سی کوئی آفت ناگہانی ٹوٹ پڑی جس سے محفوظ رہنے کی کسی کے پاس کوئی ضمانت نہیں ہے یا اور کچھ نہیں تو موت کی آخری گھڑی آن پہنچی جس سے بہر حال کسی کو مفر نہیں ، تو اس وقت عیش دنیا کے یہ چند سال آخر ان کے لیے کیا مفید ثابت ہوں گے ؟