یعنی کوئی ایک متعین راہ نہیں ہے جس پر وہ سوچتے اور اپنی قوت گویائی صرف کرتے ہوں ، بلکہ ان کا تو سَنِ فکر ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے اور جذبات یا خواہشات و اغراض کی ہر نئی رَو ان کی زبان سے ایک نیا مضمون ادا کراتی ہے جسے سوچنے اور بیان کرنے میں اس بات کا کوئی لحاظ سرے سے ہوتا ہی نہیں کہ یہ بات حق اور صدق بھی ہے۔ کبھی ایک لہر اٹھی تو حکمت و موعظت کی باتیں ہونے لگیں اور کبھی دوسری لہر آئی تو اسی زبان سے انتہائی گندے سفلی جذبات کا ترشح شروع ہو گیا۔ کبھی کسی سے خود ہوئے تو اے آسمان پر چڑھا دیا اور کبھی بگڑ بیٹھے تو اسی کو تحت الثریٰ میں جا گرایا۔ ایک بخیل کو حاتم اور ایک بزدل کو رستم و اسفندیار پر فضیلت دینے میں انہیں ذرا تامل نہیں ہوتا اگر اس سے کوئی غرض وابستہ ہو۔ اس کے برعکس کسی سے رنج پہنچ جائے تو اس کی پاک زندگی پر دھبہ لگانے اور اس کی عزت پر خاک پھینکنے میں ، بلکہ اس کے نسب پر طعن کرنے میں بھی ان کو شرم محسوس نہیں ہوتی۔ خدا پرستی اور دہریت، مادہ پرستی اور روحانیت، حسن اخلاق اور بد اخلاقی، پاکیزگی اور گندگی، سنجیدگی اور ہزل، قصیدہ اور ہجو سب کچھ ایک ہی شاعر کے کلام میں آپ کو پہلو بہ پہلو مل جائے گا۔ شعراء کی ان معروف خصوصیات سے جو شخص واقف ہو اس کے دماغ میں آخر یہ بے تکی بات کیسے اتر سکتی ہے کہ اس قرآن کے لانے والے پر شاعری کی تہمت رکھی جائے جس کی تقریر جچی تلی، جس کی بات دو ٹوک، جس کی راہ بالکل واضح اور متعین ہے اور جس نے حق اور راستی اور بھلائی کی دعوت سے ہٹ کر کبھی ایک کلمہ بھی زبان سے نہیں نکالا ہے۔ |