اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر١٦

 اصل الفاظ ہیں : وَاَنَا مِنَ الضَّآ لِّیْنَ، ’’ میں اس وقت ضلالت میں تھا‘‘۔ یا  ’’ میں نے اس وقت یہ کام ضلالت کی حالت میں کیا تھا‘‘۔ یہ لفظ ضلالت لازماً ’’گمراہی‘‘ کا ہی ہم معنی نہیں ہے۔ بلکہ عربی زبان میں اسے نا واقفیت، نادانی، خطا، نسیان، نادانستگی وغیرہ معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جو واقعہ سورہ قصص میں بیان ہوا ہے اس پر غور کنے سے یہاں ضلالت بمعنی خطا یا نا دانستگی ہی لینا زیادہ صحیح ہے۔ حضرت موسیٰ نے اس قبطی کو ایک اسرائلی پر ظلم کرتے دیکھ کر صرف ایک گھونسا مارا تھا۔ ظاہر ہے کہ گھونسے سے بالعموم آدمی مرتا نہیں ہے ، نہ قتل کی نیت سے گھونسا مارا جاتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سے وہ شخص مرگیا۔ اس لیے صحیح صورت واقعہ یہی ہے کہ یہ قتل عمد نہیں بلکہ قتل خطا تھا۔ قتل ہوا ضرور، مگر بالارادہ قتل کی نیت سے نہیں ہوا، نہ کوئی ایسا آلہ یا ذریعہ استعمال کیا گیا جو قتل کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے یا جس سے قتل واقع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔