اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۲

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حالت کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ کہف میں فرمایا : قَلَعَلَّکَ بَا خِعٌ نَّفْسَکَ عَلیٰٓ اٰثَارِھِمْ اِنْ  لَّم یُؤْ مِنُوْ ا لِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاًO ‘‘شاید تم ان کے پیچھے غم کے مرے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ‘‘۔ (آیت 6)۔ اور سورہ فاطر میں ارشاد ہوا فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرَاتٍO ’’ ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ‘‘ (آیت 8)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت، اس کی اخلاقی پستی، اس کی ہٹ دھرمی، اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جاں گُسِل کیفیت میں گزارتے رہے ہیں۔ بَخع کے اصل معنی پوری طرح ذبح کر ڈالنے کے ہیں۔ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ کے لغوی معنی یہ ہوئے کہ تم اپنے آپ کو قتل کیے دے رہے ہو۔