اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۴۵

 بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب لیا ہے کہ جن باغوں ، چشموں ، خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے یہ ظالم لوگ نکلے تھے ان ہی کا وارث اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کر دیا۔ یہ مطلب اگر لیا جائے تو اس کے معنی لازماً یہ ہونے چاہییں کہ فرعون کے غرق ہو جانے پر بنی اسرائیل پھر مصر واپس پہنچ گئے ہوں اور آل فرعون کی دولت و حشمت ان کے قبضے میں آ گئی ہو۔ لیکن یہ چیز تاریخ سے بھی ثابت نہیں ہے اور خود قرآن مجید کی دوسری تصریحات سے بھی اس آیت کا یہ مفہوم مطابقت نہیں رکھتا۔ سورہ بقرہ، سورہ مائدہ، سورہ اعراف اور سورہ طٰہٰ میں جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف پلٹنے کے بجائے اپنی منزل مقصود (فلسطین) ہی کی طرف آگے روانہ ہو گئے اور پھر حضرت داؤد کے زمانے (1013، 973 ق م ) تک ان کی تاریخ میں جو واقعات بھی پیش آئے وہ سب اس علاقے میں پیش آئے جو آج جزیرہ نمائے سینا، شمالی عرب، شرق اُردُن اور فلسطین کے ناموں سے موسوم ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہی باغ اور چشمے اور خزانے اور محلات بنی اسرائیل کو بخش دیے جن سے فرعون اور اس کی قوم کے سردار اور امراء نکالے گئے تھے ، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف آل فرعون کو ان نعمتوں سے محروم کیا اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو یہی نعمتیں عطا فرما دیں ، یعنی وہ فلسطین کی سر زمین میں باغوں ، چشموں ، خزانوں اور عمدہ قیام گاہوں کے مالک ہوئے۔ اسی مفہوم کی تائید سورہ اعراف کی یہ آیت کرتی ہے : فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْ کَذَّ بُوْ ا بِایٰٰتِنَا وَکَانُوْ ا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ ہ وَاَ وْرَثْنَا الْقَوْمَ ا لَّذِیْنَ کَا نُوْ ا یَسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا، (آیات 136۔ 137)۔ ’’ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہو گئے تھے۔ اور ان کے بجائے ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے اس ملک کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا‘‘۔ یہ برکتوں سے مالا مال سر زمین کا استعارہ قرآن مجید میں عموماً فلسطین ہی کے لیے استعمال ہوا ہے اور کسی علاقے کا نام لیے بغیر جب اس کی یہ صفت بیان کی جاتی ہے تو اس سے یہی علاقہ مراد ہوتا ہے۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ۔ اور سورہ انبیاء میں ارشاد ہوا : وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطاً اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ ہ اور وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ اِلَی الْاَ رْضِ الَّتِیْ بٰرَ کْنَا فِیْھَا۔ اسی طرح سورہ سبا میں بھی اَرلْقُرَی الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا کے الفاظ سرزمین شام و فلسطین ہی کی بستیوں کے متعلق استعمال ہوئے ہیں۔