اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۵۸

 یہ دوسری وجہ ہے اللہ اور اکیلے اللہ ہی کے مستحق عبادت ہونے کی۔ اگر اس نے انسان کو بس پیدا ہی کر کے چھوڑ دیا ہوتا اور آگے اس کی خبر گیری سے وہ بالکل بے تعلق رہتا، تب بھی کوئی معقول وجہ اس امر کی ہو سکتی تھی کہ انسان اس کے علاوہ کسی دوسری طرف بھی سہارے ڈھونڈنے کے لیے رجوع کرتا۔ لیکن اس نے تو پیدا کرنے کے ساتھ رہنمائی، پرورش، نگہداشت، حفاظت اور حاجت روائی کا ذمہ بھی خود ہی لے لیا ہے۔ جس لمحے انسان دنیا میں قدم رکھتا ہے اسی وقت ایک طرف اس کی ماں کے سینے میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے تو دوسری طرف کوئی ان دیکھی طاقت اسے دودھ چوسنے اور حلق سے اتارنے کا طریقہ سکھا دیتی ہے۔ پھر اس تربیت و رہنمائی کا سلسلہ اول روز پیدائش سے شروع ہو کر موت کی آخری ساعت تک برابر جاری رہتا ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں انسان کو اپنے وجود اور نشو و نما اور بقاء و ارتقاء کے لیے جس جس نوعیت کے سر و سامان کی حاجت پیش آتی ہے وہ سب اس کے پیدا کرنے والے نے زمین سے لے کر آسمان تک ہر طرف مہیا کر دیا ہے۔ اس سر و سامان سے فائدہ اٹھانے اور کام لینے کے لیے جن جن طاقتوں اور قابلیتوں کی اس کو حاجت پیش آتی ہے وہ سب بھی س کی ذات میں ودیعت کر دی ہیں۔ اور ہر شعبہ حیات میں جس جس طرح کی رہنمائی اس کو درکار ہوتی ہے اس کا بھی پورا انتظام اس نے کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے انسانی وجود کی حفاظت کے لیے اور اس کو آفات سے ، بیماریوں سے ، مہلک جراثیم سے  اور زہریلے اثرات سے بچانے کے لیے خود اس کے جسم میں اتنے زبردست انتظامات کیے ہیں کہ انسان کا علم ابھی تک ان کا پورا احاطہ بھی نہیں کر سکا ہے۔ اگر یہ قدرتی انتظامات موجود نہ ہوتے تو ایک معمولی کانٹا چبھ جانا بھی انسان کے لیے  مہلک ثابت ہوتا اور اپنے علاج کے لیے آدمی کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکتی۔ خالق کی یہ ہمہ گیر رحمت و ربوبیت جب ہر آن ہر پہلو سے انسان کی دست گیری کر رہی ہے تو اس سے بڑی حماقت و جہالت اور کیا ہو سکتی ہے ، اور اس سے بڑھ کر احسان فراموشی بھی اور کونسی ہو سکتی ہے کہ انسان اس کو چھوڑ کر کسی دوری ہستی کے آگے سر نیاز جھکائے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے کسی اور کا دامن تھامے۔