اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۷۳

 حضرت ابراہیمؑ کے اس قصے میں نشانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکین عرب اور بالخصوص قریش کے لوگ ایک طرف تو حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کا دعویٰ اور ان کے ساتھ انتساب پر فخر کرتے ہیں مگر دوسری طرف اسی شرک میں مبتلا ہیں جس کے خلاف جدو جہد کرتے  ان کی عمر بیت گئی تھی، اور ان کے لائے ہوئے دین کی دعوت آج جو نبی پیش کر رہا ہے اس کے خلاف ٹھیک وہی کچھ کر رہے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ  کی قوم نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ ان کو یاد دلایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ تو شرک کے دشمن اور دعوت توحید کے علم بردار تھے ، تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ حضرت ممدوح مشرک نہ تھے ، مگر پھر بھی تم اپنی ضد پر قائم ہو۔ دوسرا پہلو اس قصہ میں نشانی کا یہ ہے کہ قوم ابراہیمؑ دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا، اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیلؑ و اسحاقؑ ) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگر چہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا، لیکن اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے ، : اَلَمْ یَاْ تِھِمْ نَبَاءُ الَّذِیْنَ مِنْ قَٓبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَوَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْ تَفِکٰتِ (التوبہ۔ آیت 70)۔