اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۷۹

 یہ اپنی صداقت پر حضرت نوح کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل یہ تھی کہ دعوائے نبوت سے پہلے میری ساری زندگی تمہارے درمیان گزری ہے اور آج تک تم مجھے ایک امین آدمی کی حیثیت سے جانتے رہے ہو۔ اور دوری دلیل یہ ہے کہ میں ایک بے غرض آدمی ہوں ، تم کسی ایسے ذاتی فائدے کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس کام سے مجھے حاصل ہو رہا ہو یا جس کے حصول کی میں کوشش کر رہا ہوں۔ اس بے غرضانہ طریقہ سے کسی ذاتی نفع کے بغیر جب میں اس دعوت حق کے کام میں شب و روز اپنی جان کھپا رہا ہوں ، اپنے اوقات اور اپنی محنتیں صرف کر رہا ہوں ور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا رہا ہوں ، تو تمہیں باور کرنا چاہیے کہ میں اس کام میں مخلص ہوں ، ایمانداری کے ساتھ جس چیز کو حق جانتا ہوں اور جس کی پیروی میں خلق خد کی فلاح دیکھتا ہوں وہی پیش کر رہا ہوں ، کوئی نفسانی جذبہ اس کا محرّک نہیں ہے کہ اس کی خاطر میں جھوٹ گھڑ کر لوگوں کو دھوکا دوں۔
یہ دونوں دلیلیں ان اہم دلائل میں سے ہیں جو قرآن مجید نے بار بار انبیاء علیہم السلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی ہیں اور جن کو وہ نبوت کے پرکھنے کی کسوٹی قرار دیتا ہے۔ نبوت سے پہلے جو شخص ایک معاشرے میں برسوں زندگی بسر کر چکا ہو اور لوگوں نے ہمیشہ ہر معاملہ میں اسے سچا اور راستباز آدمی پایا ہو، اس کے متعلق کوئی غیر متعصب آدمی مشکل ہی سے یہ شک کر سکتا ہے کہ وہ یکایک خدا کے نام سے اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر اتر آئے گا کہ اسے نبی نہ بنایا گیا ہو اور وہ کہے کہ خدا نے مجھے نبی بنایا ہے۔ پھر دوسری اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ ایسا سفید جھوٹ کوئی شخص نیک نیتی کے ستھ تو نہیں گھڑا کرتا۔ لا محالہ کوئی نفسانی غرض ہی اس فریب کاری کی محرک ہوتی ہے۔ اور جب کوئی شخص اپنی اغراض کے لیے اس طرح کی فریب کاری کرتا ہے تو اخفا کی تمام کوششوں کے باوجود اس کے آثار نمایاں ہو کر رہتے ہیں۔ اسے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے ہیں جن کے گھناؤنے پہلو گرد و پیش کے معاشرے میں چھپائے نہیں چھپ سکتے۔ اور مزید برآں وہ اپنی پیری کی دکان چمکا کر کچھ نہ کچھ اپنا بھلا کرتا نظر آتا ہے۔ نذرانے وصول کیے جاتے ہیں ، لنگر جاری ہوتے ہیں ، جائدادیں بنتی ہیں ، زیور گھڑے جاتے ہیں ، اور فقیری کا آستانہ دیکھتے دیکھتے شاہی دربار بنتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جہاں اس کے بر عکس نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کی ذاتی زندگی ایسے فضائل اخلاق سے لبریز نظر آئے کہ اس میں کہیں ڈھونڈے سے بھی کسی فریب کارانہ ہتھکنڈے کا نشان نہ مل سکے ، اور اس کام سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا تو در کنار، وہ اپنا سب کچھ اسی خدمت بے مزد کی نذر کر دے ، وہاں جھوٹ کا شبہ کرنا کسی معقول انسان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔کوئی شخص جو عقل بھی رکھتا ہو اور بے انصاف بھی نہ ہو، یہ تصور نہیں کر سکتا کہ آخر ایک اچھا بھلا آدمی، جو اطمینان کی زندگی بسر کر رہا تھا، کیوں بلا وجہ ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھے جب کہ اسے کوئی فائدہ اس جھوٹ سے نہ ہو، بلکہ وہ الٹا اپنا مال، اپنا وقت اور اپنی ساری قوتیں اور محنتیں اس کام میں کھپا رہا ہو اور بدلے میں دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہا ہو۔ ذاتی مفاد کی قربانی آدمی کے مخلص ہونے کی سب سے زیادہ نمایاں دلیل ہوتی ہے۔ یہ قربانی کرتے جس کو سالوں بیت جائیں اسے  بد نیت یا خود غرض سمجھنا خود اس شخص کی اپنی بد نیتی کا ثبوت ہوتا ہے جو ایسے آدمی پر یہ الزام لگائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المؤمنون، حاشیہ 70)۔