اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۸١

 یہ لوگ جنہوں نے حضرت نوح کو دعوت حق کا یہ جواب دیا، ان کی قوم کے سردار، شیوخ اور اشراف تھے ،جیس اکہ دوسرے مقم پر اسی قصے کے سلسلے میں بیان ہوا ہے : فَقَالَالْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰ کَ اِلَّا بَشَراً  مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا ا لَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِ لُنَا بَادِیَ الرَّ أ یِ، وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ (ہود، آیت 27)۔ ’’ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا ہمیں تو تم اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتے کہ بس ایک انسان ہو ہم جیسے ، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری پیروی صرف ان لوگوں نے بے سمجھے بوجھے اختیار کر لی ہے جو ہمارے ہاں کے اراذل ہیں ، اور ہم کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتے جس میں تم لوگ ہم سے بڑھے ہوئے ہو ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح پر ایمان لانے والے زیادہ تر غریب لوگ، چھوٹے چھوٹے پیشہ ور لوگ، یا ایسے نوجوان تھے جن کی قوم میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ رہے اونچے طبقہ کے با اثر اور خوش حال لوگ، تو وہ ان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اور وہی اپنی قوم  کے عوام کو طرح طرح کے فریب دے دے کر اپنے پیچھے لگائے رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں جو دلائل وہ حضرت نوحؑ کے خلاف پیش کرتے تھے ان میں سے ایک استدلال یہ تھا کہ اگر نوح کی دعوت میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے امراء علماء، مذہبی پیشوا، معززین اور سمجھ دار لوگ اسے قبول کرتے۔ لیکن ان میں سے تو کوئی بھی اس شخص پر ایمان نہیں لایا ہے۔ اس کے پیچھے لگے ہیں ادنیٰ طبقوں کے چند نادان لوگ جو کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اب کیا ہم جیسے بلند پایہ لوگ ان بے شعور اور کمین لوگوں کے زمرے میں شامل ہو جائیں ؟
بعینہٖ یہی بات قریش کے کفار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ ان کے پیرو یا تو غلام اور غریب لوگ ہیں یا چند نادان لڑکے ، قوم کے اکابر اور معززین میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے۔ ابوسفیان نے ہرقل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ : تَبِعَہٗ مِنا الضعفآء والمَسَاکین (محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ہمارے غریب اور کمزور لوگوں نے قبول کی ہے ) گویا ان لوگوں کا طرز فکر یہ تھا کہ حق صرف وہ ہے جسے قوم کے بڑے لوگ حق مانیں کیونکہ وہی عقل اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ، رہے چھوٹے لوگ، تو ان کا چھوٹا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بے عقل اور ضعیف الرائے ہیں ، اس لیے ان کا کسی بات کو مان لینا اور بڑے لوگوں کا رد کر دینا صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک بے وزن بات ہے۔ بلکہ کفار مکہ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل لاتے تھے کہ پیغمبر بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہو سکتا، خدا کو اگر واقعی کوئی پیغمبر بھیجنا منظور ہوتا تو کسی بڑے رئیس کو بناتا، وَقَالُوْا لَوْ لَا نُزِّ لَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَالْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (الزخرف، آیت 3) ’’ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن ہمارے دونوں شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا‘‘۔