اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۸۳

 یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ ان کے اعتراض میں یہ بات بھی مضمر تھی کہ ایمان لانے والوں کا جو گروہ حضرت نوحؑ کے گرد جمع ہو رہا ہ یہ چونکہ ہمارے معاشرے کے ادنیٰ طبقات پر مشتمل ہے ، اس لیے اونچے طبقوں میں سے کوئی شخص اس زمرے میں شامل ہونا گوارا نہیں کر سکتا۔ دوسرے الفاظ میں گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اے نوحؑ کیا تم پر ایمان لا کر ہم اپنے آپ کو اراذل اور سفہاء میں شمار کرائیں ؟ کیا ہم غلاموں ، نوکروں ، مزدوروں اور کام پیش لوگوں کی صف میں آ بیٹھیں ؟ حضرت نوحؑ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ میں آخر یہ غیر معقول طرز عمل کیسے اختیار کر سکتا ہوں کہ جو لوگ میری بات نہیں مانتے ان کے تو پیچھے پھرتا رہوں اور جو میری بات مانتے ہیں انہیں دھکے دے کر نکال دوں۔ میری حیثیت تو ایک ایسے بے لاگ آدمی کی ہے جس نے علی الاعلان کھڑے ہو کر پکار دیا ہے کہ جس طریقے پر تم لوگ چل رہے ہو یہ باطل ہے اور اس پر چلنے کا انجام تباہی ہے ، اور جس طریقے کی طرف میں رہنمائی کر رہا ہوں اسی میں تم سب کی نجات ہے۔ اب جس کا جی چاہے میری اس تنبیہ کو قبول کر کے سیدھے راستے پر آئے اور جس کا جی چاہے آنکھیں بند کر کے تباہی کی راہ چلتا رہے۔ میں یہ نہیں کر سکتا کہ جو اللہ کے بندے میری اس تنبیہ کو سن کر سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے میرے پاس آئیں ان کی ذات، برادری، نسب اور پیشہ پوچھوں اور اگر وہ آپ لوگوں کی نگاہیں ’’کمین‘‘ ہوں تو ان کو واپس کر کے اس انتظار میں بیٹھا رہوں کہ ’’شریف‘‘ حضرات کب تباہی کا راستہ چھوڑ کر نجات کی راہ پر قدم رنجہ فرماتے ہیں۔
ٹھیک یہی معاملہ ان آیات کے نزول کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہا تھا اور اسی کو نگاہ میں رکھنے سے یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کی یہ گفتگو یہاں کیوں سنائی جا رہی ہے۔ کفار مکہ کے بڑے بڑے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ہم آخر بلال اور عَمار ادر صہیب جیسے غلاموں اور کام پیشہ لوگوں کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ ایمان لانے والوں کی صف سے یہ غریب لوگ نکالے جائیں تب کوئی امکان اس کا نکل سکتا ہے کہ اشراف ادھر کا رخ کریں ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ محمود اور ایز ایک صف میں کھڑے ہو جائیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بالکل صاف اور دو ٹوک الفاظ میں یہ ہدایت دی گئی کہ حق سے منہ موڑنے والے متکبروں کی خاطر ایمان قبول کرنے والے غریبوں کو دھکے نہیں دیے جا سکتے :
اَمَّا مَنِاسْتَغْنیٰ ۙ  فَاَنْتَ لَہٗتَصَدّٰ ی ؕ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّیٰ ؕ وَاَ مَّا مَنْ جَآ ءَکَ یَسْعٰ  ۙ  وَھُوَیَخْشیٰ ۙ فَاَ نْتَ عَنْہُ تَلَھّیٰ  کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃً   فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہٗ ‏۔ (آیات 5 تا 13 )
اے محمدؐ، جس نے بے نیازی برتی تم اس کے پیچھے پڑتے ہو؟ حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے۔ اور جو تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اس حال میں کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے ،تم اس سے بے رخی برتتے ہو؟ ہر گز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْ عُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجُھَہٗ  ؕ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَمَا مَنْ حِسَابِکَ عَلُیْھِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطُرُ دَھُمْٰ فَتَکُوْ نَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۵ وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْ لُوْٓ ا اَھٰٓؤُ لَآءِ مَنَّ اللہُ عَلَیْھِمْ مِّنْ‏‏ ؍ بَیْنِنَا ؕ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِا شّٰکِرِیْنَ ہ (الانعام۔ آیت 52 )۔
نہ دور پھینکو ان لوگوں کو جو شب و روز اپنے رب کا پکارتے ہیں محض اس کی خوشنودی کی خاطر۔ ان کا کوئی حساب تمہارے ذمہ نہیں اور تمہارا کوئی حساب ان کے ذمہ نہیں۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے۔ ہم نے تو اس طرح ن لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈال دیا ہے تاکہ وہ کہیں ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی لوگ رہ گئے تھے جن پر اللہ کا فضل و کرم ہوا؟‘‘ ہاں ، کیا اللہ اپنے شاکر بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا۔