اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۸۹

 حضرت ہود کی اس تقریر کو سمجھنے کے یے ضروری ہے کہ اس قوم کے متعلق وہ معلومات ہماری نگاہ میں رہیں جو قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ہمیں بہم پہنچائی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ :
قومِ نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں جس قوم کو عروج عطا کیا گیا وہ یہ تھی :
وَاذْکُرُ وْ آ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مَنْ؍ بَعْدِ قَوْ مِ نُوْحٍ۔ (الاعراف۔ آیت 69)
یاد کرو (اللہ کے اس فضل و انعام کو کہ ) نوح کی قوم کے بعد اس نے تم کو خلیفہ بنایا۔
جسمانی حیثیت سے یہ بڑے تنو مند اور زور آور لوگ تھے :
وَزَا دَ کُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً (الاعراف، آیت 69 ) اور تمہیں جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا۔
اپنے دور میں یہ بے نظیر قوم تھی۔ کوئی دوسری قوم اس کی ٹکر کی نہ تھی:
اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَا دِ ۃ (الفجر، آیت 8) جس کے مانند ملوں میں کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی۔
اس کا مدن بڑا شاندار تھا، اونچے اونچے ستونوں کی بلند و بالا عمارتیں بنانا اس کی وہ خصوصیت تھی جس کے  لیے وہ اس وقت کی دنیا میں مشہور تھی :
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ہ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِO (الفجر، آیات 6۔7 )
تو نے دیکھا نہیں کہ تیرے رب نے کیا کیا ستونوں والے عادِ  ارم کے ساتھ؟
اس مادی ترقی اور جسمانی زور آوری نے ان کو سخت متکبر بنا دیا تھا اور انہیں اپنی طاقت کا بڑا گھمنڈ تھا:
فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْ ا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الحَقِّ وَقَالُوْ ا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّ ۃً۔ (حٰم السجدہ۔ آیت 15)
رہے عاد، تو انہوں نے زمین میں حق کی راہ سے ہٹ کر تکبر کی روش اختیار کی اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور۔
ان کا سیاسی نظام چند بڑے بڑے جباروں کے ہاتھ میں تھا جن کے آگے کوئی دم نہ مار سکتا تھا :
وَاتَّبَعُوْ آاَمْرَ کُلِّ جَبَّارً عَنِیْدً O (ہود۔ آیت 59) اور انہوں نے ہر جبار دشمن حق کے حکم کی پیروی کی۔
مذہبی حیثیت سے یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے منکر نہ تھے ، بلکہ شرک میں مبتلا تھے۔ ان کو اس بات سے نکار تھا کہ بندگی صرف اللہ کی ہونی چاہیے :
قَالُوْ آ اَجِئْتَنَا لَنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا کَا نَ یَعْبُدُ اٰبَآ  ؤْنَا۔ (الاعراف آیت 70) انہوں نے (ہود سے ) کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی بندگی کریں اور ان کو چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟
ان خصوصیات کو نظر میں رکھنے سے حضرت ہودؑ کی یہ تقریر دعوت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے۔