جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد (ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَا بُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ، ’’ وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْ نَ مِنْ سُھُوْ لِھَا قُصُوْ راً۔ (الاعراف۔آیت 74)۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے۔ دوری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔ |