اس رکوع کو چھاپیں

سورة الشعراء حاشیہ نمبر۹۹

 جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد (ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَا بُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ، ’’ وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ‘‘۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْ نَ مِنْ سُھُوْ لِھَا قُصُوْ راً۔ (الاعراف۔آیت 74)۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے۔ دوری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں۔
ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 ء کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء (جسے عہد نبوی وادی القریٰ کہا جاتا تھا) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے درو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے۔ آبادی بارے نام ہے۔ روئیدگی بہت کم ہے۔ چند کنوئیں ہیں۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے (اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے )۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گئے ہیں۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ  کر قاش قاش کر رکھا ہے (ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں )۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30۔40۔ میل اندر تک ملتے چلے گئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل فورا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر، اور اردن کی ریاست میں پٹرا ( Petra) کے مقام پر بھی ملیں۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے (ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں )۔ انگریز مستشرق ڈاٹی( ( Daughty قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ، نبطیوں کی نائی ہوئی عمارات ہیں۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا، اور پھر ایلورہ میں (جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا۔