اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر١۵

یعنی قصور کرنے والا بھی اگر توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کرلے اور بُرے عمل کے بجائے نیک عمل کرنے لگے تو میرے ہاں اس کے لیے عفو و درگزر کا دروازہ کھلا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات ارشاد فرمانے سے مقصود ایک تنبیہ بھی تھی اور بشارت بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نادانستگی میں ایک قبطی کو قتل کر کے مصر سے نکلتے تھے۔ یہ ایک قصور تھا جس کی طرف لطیف اشارہ فرما دیا گیا۔ پھر جس وقت یہ قصور اچانک بلا ارادہ ان سے سر زد ہوا تھا اس کے بعد فوراً ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی تھی کہ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِی۔ (اے پر وردگار ، میں اپنے  نفس پر ظلم کر گزرا مجھے معاف فرمادے) اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت انہیں معاف فرمادیا تھا، فَغَفَرَلَہٗ ( القصص، آیت۱۶) اب یہاں اُسی معافی کی بشارت انہیں دی گئی ہے۔ گویا مطلب اس تقریر کا یہ ہوا کہ اے موسیٰ، میرے حضور تمہارے لیے ڈرنے کی ایک وجہ تو ضرور ہوسکتی تھی، کیونکہ تم سے ایک قصور سر زد ہو گیا تھا، لیکن جب تم اس برائی کو بھلائی سے بدل چکے ہو تو  میرے پاس تمہارے لیے اب مغفرت اور رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی سزا دینے کے لیے اس وقت میں نے تمہیں نہیں بلایا ہے بلکہ بڑے بڑے معجزے دے کر میں تمہیں ایک کارِ عظیم پر بھیجنے والا ہوں۔