اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر١۷

قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کے اعلان کے مطابق کوئی بلائے عام مصر پر نازل ہوتی تھی تو فرعون حضرت موسیٰ سے کہتا تھا کہ تم اپنے خدا سے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو، پھر جو کچھ تم کہتے ہو وہ ہم مان لیں گے۔ مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اُسی ہٹ دھرمی پر تُل جاتا تھا(الاعراف، آیت ۱۳۴۔ الزخرف، آیت۴۹۔۵۰) ۔ بائیبل میں بھی اس کا ذکر موجود ہے (خروج، باب ۸ تا ۱۰) ۔ اور ویسے بھی یہ بات کسی طرح تصوّر میں نہ آسکتی تھی کہ ایک پورے ملک پر قحط اور طوفان اور ٹڈی دلوں کا ٹوٹ پڑنا اور مینڈکوں اور سُرسُر یوں کے بے شمار لشکروں کا اُمنڈ آنا کسی جادو کا کرشمہ ہو سکتا ہے۔یہ ایسے کُھلے ہوئے معجزے تھے جن کو دیکھ کر ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی یہ سمجھ سکتا تھا کہ پیغمبر کے کہنے پر ایسی ملک گیر بلاؤں کا آنا اور پھر اس کے کہنے پر ان کا دَور ہو جانا صرف اللہ ربّ العالمین ہی کے تصرف کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰ نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ،”تو خوب جان چکا ہے کہ یہ نشانیاں مالک زمین و آسمان کے سوا کسی اور نے نازل نہیں کی ہیں“(بنی اسرائیل، آیت ۱۰۲)۔ لیکن جس وجہ سے فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے جان بوجھ کر ان کا انکار کیا وہ یہ تھی کہ اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَ یْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَا بِدُوْنَ،”کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں کی بات مان لیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے“؟(المومنون، آیت۴۷)۔