اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۲۴

اس آیت کو بھی  آج کل کے بعض مفسرین نے تاویل کے خراوپر چڑھایا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی النمل سے مراد چیونٹیوں  کی وادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وادی کا نام ہے جو شام کے علاقے میں تھی اور نملۃ کے معنی ایک چیونٹی کے نہیں ہیں  بلکہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے ۔ اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ”جب حضرت سلیمانؑ وادی النمل میں پہنچے تو ایک نملی نے کہا کہ اے قبیلہ نمل کے  لوگو.....“۔ لیکن یہ بھی ایسی تاویل ہے جس کا ساتھ قرآن کے الفاظ نہیں دیتے ۔ اگر بالفرض وادی النمل کو اُس وادی کا نام مان لیا جائے ، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہاں بنی النمل نام کا کوئی قبیلہ رہتا تھا، تب بھی یہ بات عربی زبان کے استعمالات کے بالکل خلاف ہے کہ قبیلہ نمل کے ایک فرد کو نملہ کیا جائے۔ اگرچہ جانوروں کے نام پر عرب کے بہت سے قبائل کے نام ہیں، مثلاً کلب، اسد وغیرہ ۔ لیکن عرب قبیلہ کلب کے کسی فرد کے متعلق قال کلب( ایک کتے نے یہ کہا) یا قبیلہ اسد کے کسی شخص کے متعلق قَالَ اَسَدٌ ( ایک شیر نے کہا) ہر گز نہیں بولے گا۔ اس لیے بنی النمل کے ایک فرد کے متعلق یہ کہنا کہ قَالَتْ نَمْلَۃٌ، ( ایک چیونٹی یہ بولی) قطعاً عربی  محاورہ و استعمال کے خلاف ہے ۔ پھر قبیلہ نمل کے ایک فرد کا بنی النمل کو پکار کر یہ کہنا کہ”اے نمیلو، اپنے گھروں میں گُھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان کے  لشکر تم کو کچل ڈالیں  اور انہییں خبر بھی نہ ہو“بالکل بے معنی ہے۔ انسانوں کے کسی گروہ کو انسانوں کا کوئی لشکر بے خبری میں  نہیں کچلا کرتا ۔ اگر وہ اُن پر حملے کی نیت سے آیا ہو تو اُن کا اپنے گھروں میں گھس جانا لا حاصل ہے۔ حملہ آور اُن کے گھروں میں گھس کا انہیں اور زیادہ اچھی طرح کچلیں گے۔ اور اگر وہ محض کوچ کرتا ہوا گزر رہا ہو تو اس کے لیے بس راستہ صاف چھوڑد ینا کافی ہے ۔ کوچ کرنے والوں کی لپیٹ میں آکر انسانوں کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے ، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ چلتے ہوئے انسان بے خبری میں انسانوں کو کچل ڈالیں۔لہذا اگر بنی النمل کو ئی انسانی  قبیلہ ہوتاق اور اس کا کوئی فرد اپنے قبیلے کے لوگوں کو خبر دار کر نا چاہتا تو حملے کے خطرے کی صورت میں وہ کہتا کہ ”اے نمیلو، راستہ سے ہٹ جاؤ تا کہ تم میں  سے کوئی شخص سلیمانؑ کے لشکروں کی جھپیٹ میں نہ آجائے“۔
          یہ تو وہ غلطی ہے جو اس تاویل میں عربی زبان اور مضمون عبارت کے اعتبار سے ہے۔ رہی یہ بات کہ وادی النم دراصل اس وادی کا نام تھا، اور وہاں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ رہتا تھا، یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے لیے کوئی علمی ثبوت موجود نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے اس وادی کا نام قرار دیا ہے انہوں نے خو د یہ تصریح کی ہے کہ اسے چیونٹیوں کی کثرت کے باعث یہ نام دیا گیا تھا۔ قَتَادہ اور مُقاتل کہتے ہیں کہ واد با رض الشامِ کثیر النمل ” وہ ایک وادی ہے سرزمینِ شام میں جہاں چیونٹیاں بہت ہیں“۔ لیکن تاریخ و جغرافیہ کی کسی کتاب میں اور آثار قدیمہ کی کسی تحقیقات میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس وادی میں بنی النمل نامی کوئی قبیلہ بھی رہتا تھا۔ یہ صرف ایک من گھڑت ہے جو اپنی تاویل کی گاڑی چلانے کے وضع کر لی گئی ہے۔
          بنی اسرائیل کی روایات میں بھی یہ قصہ پایا جاتا ہے ۔ مگر اس کا آخری حصہ  قرآن کے خلاف ہے اور حضڑت سلیمانؑ کی شان کے خلاف بھی ہے ۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ جب ایک وادی سے گزر رہے تھے جس میں چیونٹیاں بہت تھیں تو انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی پکار کردوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی ہے کہ ”اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ ورنہ سلیمانؑ کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں گے“۔اس پر حضرت سلیمانؑ نے اس چیونٹی کے سامنے بڑے تکبر کا اظہار کیا اور جواب میں اس چیونٹی نے ان سے کہا کہ تمہاری حقیقت کیا ہے ، ایک حقیر بوند سے تو تم پیدا ہوئے ہو ۔ یہ سن کر حضرت سلیمانؑ شرمندہ ہو گئے(جیوش انسائکلو پیڈیا، ج۱۱، ص۴۴۰)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کس طرح بنی اسرائیل کی غلط روایا ت کی تصحیح کرتا  ہے  اور ان گندگیوں کو صاف کرتا ہے جو انہوں نے خود اپنے پیغمبروں کی سیرتوں پر ڈال دی تھیں۔ اِ ن روایات کے متعلق مغربی مستشرقین بے شرمی کے ساتھ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ قرآن نے سب کچھ ان سے سر قہ کر لیا ہے۔

          عقلی حیثیت سے یہ بات کچھ بھی بعید نہیں ہے کہ ایک چیونٹی اپنی جنس کے افراد کو کسی آتے ہوئے خطرے سے خبر دار کرے اور بلوں میں گھس جانے کے لییے کہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت سلیمانؑ نے اس کی بات کیسے سُن لی، تو جس شخص کے حواس کلامِ وحی جیسی لطیف چیزکا ادراک کر سکتے  ہوں، اس کے لیے چیونٹی کے کلام جیسی کثیف (Crude ) چیز کا ادراک کر لینا کوئی بڑی مشکل بات نہیں ہے۔