اس آیت کو بھی آج کل کے بعض مفسرین نے تاویل کے خراوپر چڑھایا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وادی النمل سے مراد چیونٹیوں کی وادی نہیں ہے بلکہ یہ ایک وادی کا نام ہے جو شام کے علاقے میں تھی اور نملۃ کے معنی ایک چیونٹی کے نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے ۔ اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ”جب حضرت سلیمانؑ وادی النمل میں پہنچے تو ایک نملی نے کہا کہ اے قبیلہ نمل کے لوگو.....“۔ لیکن یہ بھی ایسی تاویل ہے جس کا ساتھ قرآن کے الفاظ نہیں دیتے ۔ اگر بالفرض وادی النمل کو اُس وادی کا نام مان لیا جائے ، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ وہاں بنی النمل نام کا کوئی قبیلہ رہتا تھا، تب بھی یہ بات عربی زبان کے استعمالات کے بالکل خلاف ہے کہ قبیلہ نمل کے ایک فرد کو نملہ کیا جائے۔ اگرچہ جانوروں کے نام پر عرب کے بہت سے قبائل کے نام ہیں، مثلاً کلب، اسد وغیرہ ۔ لیکن عرب قبیلہ کلب کے کسی فرد کے متعلق قال کلب( ایک کتے نے یہ کہا) یا قبیلہ اسد کے کسی شخص کے متعلق قَالَ اَسَدٌ ( ایک شیر نے کہا) ہر گز نہیں بولے گا۔ اس لیے بنی النمل کے ایک فرد کے متعلق یہ کہنا کہ قَالَتْ نَمْلَۃٌ، ( ایک چیونٹی یہ بولی) قطعاً عربی محاورہ و استعمال کے خلاف ہے ۔ پھر قبیلہ نمل کے ایک فرد کا بنی النمل کو پکار کر یہ کہنا کہ”اے نمیلو، اپنے گھروں میں گُھس جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور انہییں خبر بھی نہ ہو“بالکل بے معنی ہے۔ انسانوں کے کسی گروہ کو انسانوں کا کوئی لشکر بے خبری میں نہیں کچلا کرتا ۔ اگر وہ اُن پر حملے کی نیت سے آیا ہو تو اُن کا اپنے گھروں میں گھس جانا لا حاصل ہے۔ حملہ آور اُن کے گھروں میں گھس کا انہیں اور زیادہ اچھی طرح کچلیں گے۔ اور اگر وہ محض کوچ کرتا ہوا گزر رہا ہو تو اس کے لیے بس راستہ صاف چھوڑد ینا کافی ہے ۔ کوچ کرنے والوں کی لپیٹ میں آکر انسانوں کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے ، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ چلتے ہوئے انسان بے خبری میں انسانوں کو کچل ڈالیں۔لہذا اگر بنی النمل کو ئی انسانی قبیلہ ہوتاق اور اس کا کوئی فرد اپنے قبیلے کے لوگوں کو خبر دار کر نا چاہتا تو حملے کے خطرے کی صورت میں وہ کہتا کہ ”اے نمیلو، راستہ سے ہٹ جاؤ تا کہ تم میں سے کوئی شخص سلیمانؑ کے لشکروں کی جھپیٹ میں نہ آجائے“۔ |