اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۳

یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف اُنہی لوگوں کی کرتی ہیں اور انجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتی ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں: ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں۔ اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کر لیں، خدائے واحد کو اپنا ایک ہی الٰہ اور رب مان لیں ، قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کر لیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بر حق مان کر اپنا پیشوا بنا لیں، اور یہ عقیدہ بھی  اختیار کر لیں کہ اس زندگی کے بعد  ایک دوسری زندگی ہے جس میں ہم  کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزائے اعمال سے دو چار ہونا ہے ۔ دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ اِن چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملاً اتباع و اطاعت کے لیے آمادہ ہوں۔ اور اس آمادگی کی اوّلین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتائیں گی، اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں گی، اس کے ہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان  کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کے نتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخر کا ر ابدی اور دائمی فلاح اِسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس پر اعتماد کر کے واقعی اس کی شاگردی قبول کر لے اور پھر اس کی ہدایات کے مطابق کام بھی کر ے۔ ایک ڈاکٹر سے استفادہ وہی مریض کر سکتا ہے جو اسے اپنا معالج بنائے اور دوا اور پر ہیز وغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے۔ اسی صورت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلا سکتے ہیں  کہ آدمی کو نتائجِ مطلوبہ حاصل ہوں گے۔

          بعض لوگوں نے اس آیت میں یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اختیار کریں۔ لیکن قرآن مجید میں اقامتِ صلٰوۃ کے ساتھ ایتاءِ زکوٰۃ کا لفظ جہاں بھی آیا ہے ، اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کر نا ہے جو نماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے ۔ علاسہ بریں زکوٰۃ کے لیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکوٰۃِ مال ادا کرنے کے معنی متعین کر دیتا ہے  ، کیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنے  کے لیے تَزَکّی کا لفظ بولا جاتا ہے  نہ کہ ایتاء زکوٰۃ۔ دراصل یہاںً  جو بات ذہن نشین کر نی مقصود ہے  وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ایمان کے ساتھ عملاً اطا عت و اتباع کا رویہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے، اور اقامتِ صلوٰۃ و ایتاء زکوٰۃ وہ پہلی علامت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کر لی ہے ۔ یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فوراً یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے ، حاکم کو حاکم چاہے اس نے مان لیا ہو، مگر حکم کی پیروی کے لیے وہ تیار نہیں ہے ۔