اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۳٦

یہاں پہنچ کر ہُد ہُد کا کردار ختم ہوتا ہے ۔ عقلیت کے مدعی حضرات نے جس بنا پر اسے پرندہ ماننے سےا نکار کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ایک پرندے کا اِس قوتِ مشاہدہ ، قوت تمیز اور قوتِ بیان سے بہرہ در ہونا بعید از امکان معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ملک پر گزرے اور یہ جان لے کہ یہ قوم سبا کا ملک ہے، اس ملک کا نظامِ حکومت یہ ہے، اس کی فرمانروا فلاں عورت ہے ، اس کا مذہب آفتاب پرستی ہے، اس کو خدائے واحد کا پرستا ر ہونا چاہیے تھا مگر یہ گمراہی میں مبتلا ہے ، اور اپنے یہ سارے مشاہدات وہ آکر اس وضاحت کے ساتھ حضرت سلیمانؑ سے بیان کر دے۔ انہی وجوہ سے کھلے کھلے ملا حدہ قرآن پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ کَلِیلَہ وِمْنَہ کی سی باتیں کرتا ہے ، اور قرآن کی عقلی تفسیریں کرنے والے اس کے الفاظ کو ان کے صریح معنی سے پھیر کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ حضرت ہُدہُد تو سرے سے کوئی پرندے تھے ہی نہیں۔ لیکن ان دونوں قسم کے حضرات کے پاس آخر وہ کیا سائنٹیفک معلومات ہیں جن کی بنا پر وہ قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہوں کہ حیوانات اور ان کی مختلف انواع اور پھر ان کے مختلف افراد کی قوتیں اور  استعداد یں کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ جن چیزوں کو وہ معلومات سمجھتے ہیں وہ درحقیقت اُس نہایت ناکافی مشاہدے سے اخذ کردہ نتائج ہیں جو محض سر سری طور پر حیوانات کی زندگی اور ان کے برتاؤ کا کیا گیا ہے ۔ انسان کو آج تک کسی یقینی ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مختلف قسم کے حیوانات کیا جانتے ہیں، کیا کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں، کیا محسوس کرتے ہیں، کیا سوچتے اور سمجھتے ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے۔ پھر بھی جو تھوڑا بہت مشاہد مختلف انواع حیوانی کی زندگی کا کیا گیا ہے اس سے ان کی نہایت حیرت انگیز استعدادوں کا پتہ چلا ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ ، جو اِن حیوانات کا خالق ہے ، ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس نے اپنے ایک نبی کو جانوروں کی منطق سمجھنے اور ان سے کلام کرنے کی قابلیت عطا کی تھی، اور اس نبی کے پاس سدھائے جانے اور تربیت پانے سے ایک ہُدہُد اس قابل ہو گیا تھا کہ دوسرے ملکوں سے یہ کچھ مشاہدے کر کے آتا اور پیغمبر کو ان کی  خبر دیتا تھا، تو بجائے اس کے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اِس بیان  کی روشنی میں حیوانات کے متعلق اپنے آج تک کے تھوڑے سے علم اور بہت سے قیاسات پر نظر ثانی کریں، یہ کیا عقلمندی ہے کہ ہم اپنے اس ناکافی علم کو معیار قرار دے کر اللہ تعالیٰ کے اس بیان کی تکذیب یا  اس کی مغوی تحریف کرنے لگیں۔