اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۴۸

قرآن مجید کا اندازِ بیان اس معاملہ میں بالکل صاف ہے کہ اُس ویو ہیکل جن کے دعوے کی طرح اِس شخص کا دعویٰ صرف دعوٰی ہی نہ رہا بلکہ فی الواقع جس وقت اِس نے دعویٰ کیا اسی وقت ایک ہی لحظہ میں وہ تخت حضرت سلیمانؑ کے سامنے رکھا نظر آیا۔ ذرا ان الفاظ پر غور کیجیے:
          ”اس شخص نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لے آتا ہوں۔ جونہی کہ سلیمانؑ سے اسے اپنے پاس رکھا دیکھا“۔
          جو شخص واقعہ کے عجیب و غریب ہونے کا تصور ذہن سے نکال کر بجائے خود اس عبارت کو پڑھے گا وہ اس سے یہی مفہوم لے گا کہ اس شخص کے یہ کہتے ہی دوسرے لمحہ میں وہ واقعہ پیش آگیا جس کا اس نے دعویٰ کیا تھا۔ اس سیدھی سی بات کو خواہ مخواہ تاویل کے خراد پر چڑھانے کی کیا ضرورت ہے ؟  پھر تخت کو دیکھتے ہی حضرت سلیمانؑ کا یہ کہنا کہ ”یہ میرے رب کا فضل ہے  تا کہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں  یا کافرِ نعمت بن جاتا ہوں،اسی صورت میں برمحل ہوسکتا ہےجب کہ یہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہو۔ ورنہ اگر واقعہ یہ ہوتا کہ ان کا ایک ہوشیار ملازم ملکہ کے لیے جلدی سے ایک تخت  بنا لایا یا بنوا لایا، تو ظاہر ہے کہ یہ ایسی کوئی نادر بات نہ ہو سکتی تھی کہ اس پر حضرت سلیمان ؑ بے اختیار ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ پکار اٹھتے اور ان کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا کہ اتنے جلدی مہمانِ عزیز کےلیے تخت تیار ہو جانے سے کہیں میں شاکرِ نعمت بننے کے بجائے کافرِ نعمت نہ بن جاؤں۔ آخر اتنی سی بات پر کسی مومن فرمانروا کو اتنا غرور اور کبر نفس لاحق ہو جانے کا کیا خطرہ ہو سکتا ہے، خصوصاً جبکہ وہ ایک معمولی مومن نہ ہو بلکہ اللہ کا نبی ہو۔

          اب رہی یہ بات کو ڈیڑھ ہزار میل سے ایک تختِ شاہی پلک چھپکتے کس طرح اُٹھ کا آگیا، تو اس کا مختصر جوا ب یہ ہے کہ زمان و مکان اور مادہ و حرکت کے جو تصورات ہم نے اپنے تجربات او ر مشاہدات کی بنا پر قائم کیے ہیں ان کے جملہ حدود صرف ہم ہی پر منطبق ہوتے ہیں۔ خدا کے لیے نہ یہ تصورات صحیح ہیں اور نہ وہ ان حدود سے محدود ہے۔ اس کی قدرت ایک معمولی تخت تو درکنار ، سورج اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کو آن کی آن میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر ا سکتی ہے ۔ جس خدا کے صرف ایک حکم سے یہ عظیم کائنات وجود میں آگئی ہے اس کا ایک ادنٰی اشارہ ہی ملکہ سبا کے تخت کو روشنی کی رفتار سے چلا دینے کےلیے کافی تھا۔ آخر اسی قرآن میں یہ ذکر بھی تو موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ رات اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے بیت المقدس لے بھی گیا اور واپس بھی لے آیا۔