اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۴۹

یعنی وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی خدائی میں کسی کی شکر گزاری سے نہ ذرہ برابر کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ کسی کی ناشکری و احسان فراموشی سے یک سِر مو  کوئی کمی آتی ہے ۔ وہ آپ اپنے ہی بل بوتے پر خدائی کر رہا ہے، بندوں کے ماننے یا نہ ماننے پر اس کی خدائی منحصر نہیں ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں ایک جگہ حضرت موسیٰ ؑ کی زبان سے نقل کی گئی ہےکہ اِنْ تَکْفُرُوْٓ ا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا فَاِنَّ اللہَ لَغَنِیٌ حَمِیْدٌ۔”اگر تم اور ساری دنیا والے مل کر بھی کفر کریں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے “۔(ابراہیم۔ آیت۸)۔ اور یہی مضمون اس حدیث قدسی  کا ہے جو صحیح مسلم میں وارد ہوئی ہے کہ :
          یقول اللہ تعالیٰ عبادی لو انّ اولکم و اٰخر کم و انسکم و جنکم کانوا علی اتقی قلب رجل منکم ما زاد ذٰلک فی ملکی شیئا ۔ یا عبادی لو ان اولکم واٰخر کم و انسکم و جنکم کانوا علے افجر قلب رجل منکم مانقص ذٰلک فی ملکی شیئا۔ یا عبادی انما ھی اعمالکم احصیھا لکم ثم او فیکم ایا ھا۔ فمن وجد خیر افلیحمد اللہ ومن وجد غیر ذٰلک فلا یومن الا نفسہ۔

          اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اور جِن اپنے سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہو جاؤ تو اس سے میری بادشاہی  میں کوئی اضافہ نہ ہو جائیگا۔ اے میرے بندو، اگر اول سے آخر تک تم سب انس اور جن اپنے سب سے زیدہ بدکار شخص کے دل جیسے ہو جاؤ تو میری بادشاہی میں اس سے کوئی کمی نہ ہوجائے گی۔ اے میرے بندو، یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جن کا میں تمہارے حساب میں شمار کرتا ہوں ، پھر ان کی پوری پوری جزا تمہیں دیتا ہوں۔ پس جسے کوئی بھلائی نصیب ہوا  سے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جسے کچھ اور نصیب ہو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔