اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۵

یعنی خدا کا قانونِ فطرت یہ ہے ، نفسیاتِ انسانی کی فطری منطق یہی ہے کہ جب آدمی زندگی اور اس کی سعی و عمل کے نتائج کو صرف اسی دنیا تک  محدود سمجھے گا، جب وہ کسی ایسی عدالت کا قائل نہ ہو گا جہاں انسان کے پورے کارنامہ حیات کی جانچ پڑتال کر کے اس کے حُسن وقبح کا آخری اور قطعی فیصلہ کیا جانے والا ہو، اور جب وہ موت کے بعد کسی ایسی زندگی کا قائل نہ ہوگا جس میں حیاتِ دنیا کے اعمال کی حقیقی قدر و قیمت کے مطابق ٹھیک ٹھیک جزا و سزا دی جانے والی ہو، تو لازماً اس کے اندر ایک مادہ پرستانہ نقطۂ نظر نشو نما پائے گا۔ اسے حق اور باطل، شرک اور توحید، نیکی اور بدی، اخلاق اور بد اخلاقی کی ساری بحثیں سراسر بے معنی نظر آئیں گی۔ جو کچھ اُسے اِس دنیا میں لذت و عیش اور مادی ترقی و خوشحالی اور قوتِ و اقتدار سے ہمکنار کرے وہی اس کے نزدیک بھلائی ہوگی قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی فلسفہ حیات اور کوئی طرزِ زندگی اور نظامِ اخلاق ہو۔ اس کو حقیقت اور صداقت سے دراصل کوئی غرض ہی نہ ہوگی۔ اس کی اصل مطلوب صرف حیات ِ دنیا کی زینتیں اور کامرانیاں ہوں گی جن کے حصول کی فکر اسے ہر وادی میں لیے بھٹکتی پھرے گی۔ اور اس مقصد کے  لیے جو کچھ بھی وہ کرے گا اسے اپنے نزدیک بڑی خوبی کی بات سمجھے گا اور اُلٹا اُن لوگوں کو بیوقوف سمجھے گا جوا ُس کی طرح دنیا طلبی میں منہمک نہیں ہیں اور اخلاق و بد اخلاقی سے بے نیز ہو کر ہر کام کر گزرنے میں بے باک نہیں ہیں۔

          کسی کے اعمال بد کو اس کے لیے خوشنما بنا دینے کا یہ فعل قرآن مجیدمیں کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور کبھی شیطان کی طرف۔ جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے مراد، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، جب یہ فعل شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو اختیار کرنے والے آدمی کے سامنے شیطان ہر وقت ایک خیالی جنت پیش کرتا رہتا ہے اور اسے خوب اطمینان دلاتا ہے کہ شاباش بر خوردار بہت اچھے جا رہے ہو۔