اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۵۲

اس سے ان لوگوں کے خیالات کی بھی تردید ہو جاتی ہے جنہوں نے صورتِ واقعہ کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ گویا حضرت سلیمانؑ اپنی مہمان ملکہ کے لیے ایک تخت بنوانا چاہتے تھے، اس غرض کے لیے انہوں نے ٹینڈر طلب کیے، ایک ہٹے کٹے کاریگر نے کچھ زیادہ مدت میں تخت بنا دینے کی پیش کش کی۔ مگر ایک دوسرے ماہر استاد نے کہا میں تُرت پُھرت بنائے دیتا ہوں۔ اس سارے نقشے کا تارو پود اس بات سے بکھر جاتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے خود ملکہ ہی کا تخت لانے کے لیے فرمایا تھا(اَیُّکُمْ یَاْتِیَنِیْ بِعَرْشِھَا)، اور اس کی آمد پر اپنے ملازموں کو اسی کا تخت  انجان طریقے سے اس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا(نَکِرُّوْ الَھَا عَرْشَھَا)، پھر جب وہ آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے (اَھٰکَذَا عَرْشُکِ) او ر اس نے کہا گویا یہ وہی ہے (کَاَنَّہُ ھُوَ)۔ اس صاف بیان کی موجودگی میں اُن لا طائل تاویلات کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اس پر بھی کسی کو شک رہے تو بعد کا فقرہ اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی ہے۔