اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۵٦

حضرت سلیمان ؑ اور ملکہ سبا کا یہ قصہ بائیبل کے عہدِ عتیق و جدید اور رروایات یہود، سب میں مختلف طریقوں سے آیا ہے ، مگر قرآن کا بیان ان سب سے مختلف ہے  ۔ عہد عتیق میں اس قصّے کا خلاصہ یہ ہے:
        ”او جب سبا کی ملکہ نے خدا وند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تا کہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے۔ اور وہ بہٹ بڑی جِلَو کے ساتھ یرشلم میں آئی۔۔۔۔ جب وہ سلیمان کے پا س پہنچی تو اُس نے ان سب باتوں کے بارہ میں جو اس کے دل میں تھیں اس سے گفتگو کی۔ سلیمان نے ان سب کا جواب دیا۔۔۔۔ اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کی جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دسترخوان  کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی۔ تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آکر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیا ۔ اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اُ س شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے ۔ خوش نصیب ہیں  تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے  اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خدا وند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا۔۔۔۔ اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار اور بیش بہا جواہر دیے اور جیسے مسالےسبا کی ملکہ نے سلیمان بادشاہ کو دیے ویسے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے ۔۔۔۔ اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئی او جوکچھ اس نے مانگا دیا۔ پھر وہ اپنے ملازموں  سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی “۔(۱۔سلاطین۱۰:۱۔۱۳۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون۲۔تواریخ۹:۱۔۱۲میں بھی ہے)۔
          عہدِ جدید میں حضرت عیسٰی کی ایک تقریر کا صرف یہ فقرہ ملکہ سبا کے متعلق منقول ہوا ہے:
          ”دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ  کر ان کو مجرم ٹھیرائے گی،کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمانؑ کی حکمت سنے کو آئی اور  دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے“۔(متی۱۲:۴۳۔لوقا۱۱:۳۱)۔
          یہودی ربیوں کی روایات میں حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کا قصّہ اپنی بیشتر تفصیلات میں قرآن سے ملتا جلتا ہے۔ ھُدھُد کا غائب ہونا، پھر آکر سبا اور اس کی ملکہ کے حالات بیان کرنا، حضرت سلیمانؑ کا اس کے ذیعے سے خط بھیجنا، ھُدھُد کا عین اُس وقت وہ خط ملکہ کے آگے گرانا جبکہ وہ آفتا کی پرستش کر جارہی تھی، ملکہ کا اس خط کو دیکح کر اپنے وزراء کی کونسل منعقد کرنا، پھر ملکہ کا ایک قیمتی ہدیہ حضرت سلیمانؑ کے پاس بھیجنا ، خود یر شلم پہنچ کر ان سے ملنا، ان کے محل میں پہنچ کر یہ خیال کرنا کہ حضرت سلیمانؑ پانی کے حوض میں بیٹھے ہیں ، اور اس میں اترنے کے لیے پائینچے چڑھا لینا، یہ سب ان روایات میں اسی طرح مذکور ہے جس طرح قرآن میں بیان ہوا ہے ۔ مگر یہ ہدیہ وصول ہونے پر حضرت سلیمان کا جواب ، ملک کے تخت کو اُٹھوا منگانا، ہر موقع پر ان کا خدا کے آگے جھکنا ، اور آخر کار ملکہ  کا ان کے ہاتھ پر ایمان لانا، یہ سب باتیں ، بلکہ خدا پرستی اور توحید کی ساری باتیں ہی ان روایات میں ناپید ہیں ۔ سب سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ ان ظالموں نے حضرت سلیمانؑ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے  ملکہ سبا کے ساتھ معاذ اللہ زنا کا ارتکاب کیا اور اسی حرامی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نضَّر پیدا ہوا جس نے بیت المقدس کو تباہ کیا(جیوش انسائیکلو پیڈیا ج۱۱۔ صفحہ۴۴۳) ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہودی علما ء کا ایک گروہ حضرت سلیمان کا سخت مخالف رہا ہے ۔ ان لوگوں نے ان پر توراۃ ے احکام کی خلاف ورزی ، غرورِ حکومت ، غرور عقل و دانش ، زن مریدی، عیش پرستی اور شرک وبت پرستی کے گھناؤ نے الزامات لگائے ہیں(جیوش انسائیکلو پیڈیا ج ۱۱ ص۴۳۹۔۴۴۱)اور یہ اسی پر پیگنڈے کا اثر ہے کہ بائیبل انہیں نبی کے بجائے محض ایک بادشاہ کی حیثیت سے پیش کر تی ہے اور بادشاہ بھی ایسا جو معاذ اللہ احکامِ الہٰی ے خلاف مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہو گیا ، جس کا دل خدا سے پھر گیا اور جو خدا کے سوا دوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگا(۱۔سلاطین۱۱:۱۔۱۱)ان چیزوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے بنی اسرائیل پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے اکا بر کا دامن خود ا ن کی پھینکی ہوئی گندگیوں سے صاف کیا، اور یہ بنی اسرائیل کتنے احسان فراموش ہیں کہ اس پر بھی یہ قرآن اور اس کے لانے والے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔