اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۵۸

یعنی جونہی کہ حضرت صالحؑ کی دعوت کا آغاز ہوا، ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ۔ ایک گروہ ایمان لانے والوں کا ، دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا۔ اور اس تفرقہ کے ساتھ ہی ان کے درمیان کش مکش شروع ہو گئی، جیسا کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے: قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْ ا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْ ا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسِلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ، قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ      قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓ ا اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُم ْبِہٖ کَافِرُوْنَ،”اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی کا گھمنڈرکھتے تھے انہوں نے اُن لوگوں سے جو کمزور بنا  رکھے گئے تھے ، جو اُن میں سے ایمان لائے تھے، کہا، کیا واقعی تم یہ جانتے ہو کہ صالحؑ اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہم اس چیز پر ایمان رکھتے ہیں جس کو لے کر وہ بھیجے گئے ہیں۔ ان متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہواس کے ہم کافر ہیں“(الاعراف، آیات۷۵۔۷۶)۔ یا د رہے کہ ٹھیک یہی صورت حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی تھی کہ قوم دو حصوں میں بٹ گئی اور اس کے ساتھ ہی ان دونوں گروہوں میں کش مکش شروع ہوگئی۔ اس لیے یہ قصہ آپ سے آپ اُن حالت پر چسپاں ہو  رہا تھا جن میں یہ آیات نازل ہوئیں۔