اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر٦۰

ان کے اس قول کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ تحریک ہمارے لیے سخت منحوس ثابت ہوئی ہے، جب سے تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے دینِ آبائی کے خلاف یہ بغاوت شروع کی ہے ہم پر آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی رہتی ہے ، کیونکہ ہمارے معبود ہم سے ناراض ہو گئے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ قول اکثر اُن مشرک قوموں کے اقوال سے مشابہ ہے جو اپنے انبیاء کو منحوس قرار دیتی تھیں۔ چنانچہ سورہ یٰسین میں ایک قوم کا ذکر آتا ہے  کہ اس نے اپنے انبیاء سے  کہا اِنّا تَطَیَّرْ نَا بِکُمْ”ہم  نے تم کو منحوس پایا ہے “(آیت۱۸)۔یہی بات فرعون کی قوم حضرت موسٰیؑ کے متعلق کہتی تھی:فَاِذَا جَآ ءَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَا لُوْ آ لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ۔”جب ان پر کوئی اچھا وقت آتا تو کہتے کہ ہمارے لیےیہی  ہے اور جب کوئی مصیبت آجاتی تو موسٰیؑ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کو اس کا ذمہ دار ٹھیراتے“(الاعراف، آیت۱۳۰)۔ قریب قریب ایسی ہی باتیں مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی کہی جاتی تھیں۔

          دوسرا مطلب اس قول کا یہ ہے کہ تمہارے آتے ہی ہماری قوم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ۔ پہلے ہم ایک قوم تھے جو ایک دین پر مجتمع تھی۔ تم ایسے سبز قدم آئے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا  اور بیٹا باپ سے کٹ گیا۔ اس طرح قوم کے اندر ایک نئی قوم اٹھ کھڑی ہونے کا انجام ہمیں اچھا نظر نہیں آتا۔ یہی وہ الزام تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے خلاف بار بار پیش کرتے تھے۔ آپ کی دعوت کا آغاز ہوتے ہی سردارانِ قریش کا جو وفد ابو طالب کے پاس گیا تھا اس نے یہی کہا تھا کہ ”اپنے اِس بھتیجے کو ہمارے حوالہ کر دو جس نے تمہارے دین اور تمہارے باپ دادا کے دین کی مخالفت کی ہے اور تمہاری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ساری قوم کو بے وقوف قرار دیا ہے“۔(ابن ہشام جلد اول، ص۲۸۵)۔ حج کے موقعہ پر جب کفارمکہ کو اندیشہ ہوا کہ باہر کے زائرین آکر کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر نہ ہو جائیں تو انہوں نے با ہم مشورہ کرنے کے بعد یہی  طے کیا کہ قبائل عرب سے کہا جائے:”یہ شخص جا دو گر ہے ، اس کے جادو کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیٹا باپ سے ، بھائی بھائی سے ، بیوی شوہر سے ، اور آدمی اپنے سارے خاندان سے کٹ جاتا ہے“۔(اطب ہشام۔ص۲۸۹)۔