اس رکوع کو چھاپیں

سورة النمل حاشیہ نمبر۹۳

اس فقرے کا تعلق مضمون سابق سے بھی ہے اور مضمون ما بعد سے بھی۔ مضمون سابق سے اس کا تعلق یہ ہے کہ اسی عالم الغیب خدا کے علم کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ اُمّی کی زبان سے اس قرآن میں اُن واقعات کی حقیقت کھولی جا رہی ہے جو بنی اسرائیل کی تاریخ میں گزرے ہیں، حالانکہ خود علمائے بنی اسرائیل کے درمیان ان کی اپنی تاریخ کے ان واقعات میں اختلاف ہے (اس  کے نظائر اسی سورہ نمل کے ابتدائی رکوعوں میں گزر چکے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنے حواشی میں واضح کیا ہے)۔اور مضمونِ ما بعد سے اس کا تعلق یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن اختلافات کا فیصلہ فرمایا ہے اسی طرح وہ اُس اختلاف کا بھی فیصلہ کر دے گا  جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے درمیان برپا ہے۔ وہ کھول کر رکھ دے گا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون۔ چنانچہ اِن آیات کے نزول پر چند ہی سال گزرے تھے کہ فیصلہ ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ اُسی عرب  کی سر زمین میں ، اور اسی قبیلہ قریش میں ایک متنفس بھی ایسا نہ رہا جو اس بات کا قائل نہ ہو گیا ہو کہ حق پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے نہ کہ ابو جہل اور ابو لہب۔ ان لوگوں کو اپنی اولاد تک مان گئی کہ ان کے باپ غلطی پر تھے۔