اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۰

یعنی پیدا ہوتے ہی دریا میں ڈال دینے کا حکم نہ تھا ، بلکہ ارشاد یہ ہوا کہ جب تک خطرہ نہ ہو بچے کو دودھ پلاتی رہو۔ جب راز فاش ہوتا نظر آئے اور اندیشہ ہو کہ بچے کی آواز سُن کر یا اور کسی طرح دشمنوں کو اس کی پیدائش کا علم ہو جائیگا، یا خود بنی اسرائیل ہی میں سے کوئی کمینہ آدمی مخبری کر بیٹھے گا ، تو بے خوف و خطرا سے  ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پیدائش کے بعد تین مہینے تک حضرت موسیٰؑ کی والدہ ان کو چھپائے رہیں۔ تلمود اس پر اضافہ کرتی ہے کہ فرعون کی حکومت نے اس زمانے میں جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جو اسرائیلی گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور وہاں کسی نہ کسی طرح ان بچوں کو رُلا دیتی تھیں تا کہ اگر کسی اسرائیلی نے اپنے ہاں کوئی بچہ چھپا رکھا ہو تو وہ بھِ دوسرے بچے کی آواز سن کر رونے لگے۔ اس نئے طرز جاسوسی سے حضرت موسیٰؑ کی والدہ پریشان ہو گئیں اور انہوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے پیدائش کے تین مہینے بعد اسے دریا میں ڈال دیا۔ اس حد تک ان دونوں کتابوں کا بیان قرآن کے مطابق ہے۔ اور دریا میں ڈالنے کی کیفیت بھی انہوں نے وہی بتائی ہے  جو قرآن میں بتائی گئی ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے اِقْذِفِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْیَمِّ،”بچے کو ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دے“۔ اسی کی تائید بائیبل اور تلمود بھی کرتی ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی والد ہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنا یا اور اسے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کر دیا، پھر اس میں حضرت موسیٰ کو لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ لیکن سب سے بڑی بات جو قرآن میں بیان کی گئی ہے اس کا کوئی ذکر اسرائیلی روایات میں نہیں ہے ، یعنی یہ کہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے یہ کام اللہ تعالیٰ کے اشراے پر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کو یہ اطمینان دلادیا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے میں نہ صرف یہ کہ تمہارے بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ ہم بچے کو تمہارے  پاس ہی پلٹا لائیں گے، اور یہ کہ تمہارا یہ بچہ آگے چل کر ہمارا رسول ہونے والا ہے۔