اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۰۰

یعنی یہ سیرت، یہ انداز فکر اور یہ ثوابِ الہٰی کی بخشش صرف انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جن میں اتنا تحمل اور اتنی ثابت قدمی موجود ہو کہ حالا طریقے ہی اختیار کرنے پر مضبوطی کےساتھ جمےرہیں ، خوان ان سے صرف چٹنی روٹی میسر ہو کہ کروڑ پتی بن جانا نصیب ہو جائے، اور حرام طریقوں کی طرف قطعاً مائل نہ ہوں خواہ ان سے دنیا بھر کے فائدے سمیٹ لینے کا موقع مل رہا ہو۔ اس آیت میں اللہ کےثواب سے مراد ہے وہ رزقِ کریم جو حدود اللہ کے اندر رہتے  ہوئے محنت و کوشش کرنے کے نتیجے میں انسان کو دنیا اور آخرت میں نصیب ہو۔ اور صبر سے مراد ہے اپنے جذبات اور خواہشت پر قابو رکھنا، لالچ اور حرص  وآز کے مقابلے میں ایمانداری اور راستبازی پر ثابت قدم رہنا، صداقت و دیانت سے جو نقصان بھی ہوتا ہو یا جو فائدہ بھی ہاتھ سے جاتا ہو اسے برداشت کرلینا، نا جائز تدبیروں سے جو منفعت بھی حاصل ہو سکتی ہو اسے ٹھوکر مار دینا ، حلال کی روزی خواہ بقدر سدِّر مق ہی ہو اس پر قانع و مطمئن رہنا، حرام خوروں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر رشک و تمنا کے جذبات سے بے چین ہونے کے بجائے اس پر ایک نگاہِ غلط انداز بھی نہ ڈالنا اور ٹھنڈے دل سے یہ سمجھ لینا کہ ایک ایماندارآدمی کےلیے اِس چمکدار گندگی کی بہ نسبت وہ بے رونق طہارت ہی بہتر ہے جو اللہ نے اپنے فضل سے اس کو بخشی ہے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو “تو اس دولت سے مراد اللہ کا ثواب بھی ہے اور وہ پاکیزہ ذہنیت بھی جس کی بنا پر آدمی ایمان و عمل صالح کے ساتھ فاقہ کشی کر لینے کو اس سے بہتر سمجھتا ہے  کہ بے ایمانی اختیار کر کے ارب پتی بن جائے۔