اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۰۸

اصل الفاظ ہیں لَرَآدُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ۔ ”تمہیں ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے۔“ معاد کے لغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کار آدمی کو پلٹنا ہو۔ اور اسے نکرہ استعمال کرنے سے اس میں خود بخود یہ مفہوم پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ مقام بڑی شان اور عظمت کا مقام ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد جنت لی ہے۔ لیکن اسے صرف جنت کے ساتھ مخصوص کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ کیوں نہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ، تا کہ یہ وعدہ دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہو جائے۔ سیاق عبارت کا اقتضاء بھی یہ ہے کہ اسے آخرت ہی میں نہیں  اِس دنیا میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار بڑی شان و عظمت عطا کرنے کا وعدہ سمجھا جائے ۔ کفار ِ مکہ کے جس قول پر آیت نمبر ۵۷ سے لے کر یہاں تک مسلسل گفتگو چلی آرہی ہے، اُس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبنا چاہتے ہو۔ اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اور اس دین کو اختیار کر لیں تو عرب کی سر زمین میں ہمارا جینا مشکل ہو جائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ  اپنے نبیؐ سے فرماتا ہے کہ اے نبیؐ، جس خدا نے اس قرآن کی علم برداری کا بار تم پر ڈالا ہے وہ تمہیں برباد کرنے والا نہیں ہے، بلکہ تم کو اُس  مرتبے پر پہنچانے والا ہے جس کا تصور بھی یہ لوگ آج نہیں کر سکتے۔ اور فی الواقع اللہ تعالیٰ نے چند ہی سال بعد حضورؐ کو اِس دنیا میں ، اُنہی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے  تمام ملک عرب پر ایسا مکمل اقتدار  عطا کر کے دکھا دیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہاں نہ ٹھیر سکی اور آپ کے دین کے سوا کسی دین کے لیے وہاں گنجائش نہ رہی۔ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر  اس کی موجود نہ تھی کہ پورے جزیرۃ العرب پر کسی ایک شخص کی ایسی بے غل و غش بادشاہی قائم ہو گئی ہو کہ ملک بھر میں کوئی اس کا مد مقابل باقی نہ رہا ہو، کسی میں  اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو، اور لوگ صرف سیاسی طور پر ہی  اس کے حلقہ بگوش نہ ہوئے ہوں بلکہ سارے دینوں کو مٹا کر اسی ایک شخص نے سب کو اپنے دین کا پیرو بھی بنا لیا ہو۔

بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا  ہے کہ سورۂ قصص کی یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو پھر مکہ واپس پہنچائے گا ۔ لیکن اوّل تو اس کے الفاظ میں کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ہے کہ ”معاد“ سے”مکّہ“ مراد لیا جائے ۔ دوسرے ، یہ سورۃ روایات کی رو سے بھی اور اپنے مضمون کی داخلی شہادت کے اعتبار سے بھی ہجرت حبشہ کے قریب زمانہ کی ہے اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کئی سال بعد ہجرت ِ مدینہ کے راستہ میں اگر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اسے کس مناسبت سے یہاں اِس سیاق و سباق میں لا کر رکھ دیا گیا۔ تیسرے ، اِس سیاق و سباق کے اندر مکہ کی طرف حضورؐ کی واپسی کا ذکر بالکل بے محل نظر آتا ہے۔ آیت کے یہ معنی اگر لیے جائیں تو یہ کفارِ مکّہ کی بات کا  جواب نہیں بلکہ اُن کے عذر کو اور تقویّت پہنچانے والا ہو گا۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بے شک اے اہلِ مکہ ، تم ٹھیک کہتے ہو، محمدؐ اس شہر سے نکال دیے جائیں گے ، لیکن وہ مستقل طور پر جلا وطن  نہیں رہیں گے، بلکہ آخر کار ہم انہیں اسی جگہ واپس لے آئیں گے۔ یہ روایت اگرچہ بخاری، نسائی، ابن جریر اور دوسرے محدثین نے ابن عباسؓ سے نقل کی ہے ، لیکن یہ ہے ابن عباس کی اپنی ہی رائے۔ کوئی حدیث ِمرفوع نہیں ہے کہ اسے ماننا لازم ہو۔